دہلی پولیس اپنی جوابدہی سے نہیں بچ سکتی!

یہ بہت دکھ کی بات ہے جو دہلی پولیس عوام کے ساتھ ہونے کا دعوی کرتی ہے آج سب سے بڑے گنہگار کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج پولیس کی وردی کا کسی کو خوف نہیں رہا۔ اس کی ایک وجہ ہے پولیس محکمہ میں بڑھتا کرپشن۔ لگتا تو اب یہ ہے کہ پولیس والے یہ بھول چکے ہیں کے ان کی ڈیوٹی کیا ہے؟ کس مقصد سے انہوں نے پولیس کی نوکری جوائن کی تھی؟ اگر مقصد جنتا کو لوٹ کر اپنا گھر بھرنا ہے تو ٹھیک ہے لیکن میںآج بھی مانتا ہوں کہ سبھی پولیس والے ایسے نہیں۔ وہ ایمانداری سے نہ صرف خدمت کرتے ہیں بلکہ سسٹم میں اتنی خرابی آچکی ہے کہ محکمے میں ان کا دم گھٹنے لگا ہے۔ زیادہ تر پولیس ملازم پولیس جوائن کرنے پر لئے گئے حلف کو بھی بھول چکے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ وہ عوام کی سیوا کے لئے لگائے گئے ہیں ناکہ عوام کو حیران و پریشان کرکے لوٹنے کے لئے۔ وسنت وہار اجتماعی آبروریزی معاملے میں ایک واحد چشم دید گواہ و شکایت کنندہ (لڑکی کا دوست) نے کچھ ایسے سوال کھڑے کردئے ہیں جس سے پولیس کے محکمے کے کام کرنے کے طور طریقوں کا پتہ چلتا ہے۔ پولیس محکمے نے بوکھلاہٹ میں لڑکی کے دوست کے الزامات کا جواب تو دیا لیکن وہ یہ دیکھنا ضروری نہیں سمجھے کہ اس مسئلے پر انہوں نے واقعے کے فوراً بعد کیا بیان دیا۔ پولیس بھلے ہی صفائی دے کر اپنی لاپروائی نہیں مان رہے لیکن متاثرہ لڑکی کے دوست کے ذریعے نیوز چینل کو دئے گئے انٹرویو سے یہ بات تو صاف ہوگئی ہے کہ پورے معاملے میں پولیس سے کئی جگہ بھول ہوئی ہے جس کا خمیازہ آخر کار اس بدقسمت لڑکی کو بھگتنا پڑا۔ حالانکہ پولیس کے افسر اپنی صفائی کے ذریعے خود کو چست درست اور پاک صاف بتانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ آخر متاثرہ کا دوست جھوٹ کیوں بولے گا؟ اور وہ متضاد جواب دے رہے ہیں۔ تسلی بخش جواب نہیں مل پارہا ہے۔ متاثرہ اور اس کے دوست کو پولیس گاڑی میں لے جانے کی جرأت کیوں نہیں دکھائی گئی؟ زخمی لڑکے، لڑکی کو پاس کے کسی پرائیویٹ ہسپتال میں کیوں نہیں داخل کرایا گیا تاکہ متاثرہ کی جان بچ جاتی۔ اس کوشش میں ان کی سنجیدگی نظر نہیں آئی؟ ایک مرتبہ ہسپتال ہی پہنچ گئے تو فوراً میڈیکل راحت کیوں نہیں دی گئی؟ کیا ہسپتال میں سب کچھ ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑا گیا؟ اور بھی کئی ایسے سوال ہیں جن کا پولیس کے پاس جواب نہیں ہے۔ دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ اپنی غلطی کو قبول کرنے کے بجائے وہ لڑکے پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا رہی ہے۔ پولیس کا موقف اس لئے اور بھی کمزور نظر آنے لگا کیونکہ عام جنتا اس کی سچائی پر بھروسہ کرپارہی ہے اور نہ ہی مختلف سیاسی پارٹیاں۔ مشکل یہ بھی ہے دہلی پولیس سے جواب مانگنے والا کوئی نہیں ہے۔ وزارت داخلہ پولیس کو چھونے کے لئے نہ تو تیار ہے اور نہ ہی وہ اس بات کی ضرورت سمجھتی ہے کہ اس پورے معاملے میں گہری جانچ پڑتال ہو۔ دہلی سرکار لاچاری ظاہر کر اپنا پلہ جھاڑ لیتی ہے کے پولیس ہمارے ماتحت نہیں۔ آج نہ تو وردی کا خوف رہا ہے اور نہ کی جنتا کو پولیس پر بھروسہ۔ رہی سہی کثر پولیس کے خوف کی اور عدالتوں میں چکر لگانے سے جنتاکی بیزاری ظاہر کرتی ہے۔ایسا نہیں کہ لوگ سڑکوں پر زخمیوں کی مدد نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ پولیس اور عدالتوں میں چکر لگانے سے ڈر جاتے ہیں۔ جب ہم قانون میں ترمیم کی بات کررہے ہیں تو میری رائے میں نئے قانون میں ایسی ترمیم ضرور ہونی چاہئے کے سڑک پر زخمیوں کو فوراً ہسپتال لے جانے والی پبلک ان چکروں سے بچ سکے۔ ان کی گواہی پولیس اسی وقت لے لے اور بعد میں بار بار عدالتوں کے چکر کاٹنے سے بچ سکے۔ بہت پہلے کی بات ہے کہ میں اپنی بیٹی جو مشکل سے اس وقت 6-7 سال کی تھی بھوگل سے گھر لوٹ رہا تھا ساہی ہسپتال کے سامنے ایک کار ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا ۔ ایک شخص اور اس کی بیٹی زخمی حالت میں پڑے تھے۔ لوگ آ جا رہے تھے تماشا تو دیکھ رہے تھے لیکن زخمیوں کو کار سے باہر نکال کر ہسپتال نہیں لے جارہے تھے۔ مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے اور میری بیٹی نے پتا و لڑکی کو کار سے نکالا اور اپنی کار میں بٹھایا۔ انہیں چوٹ لگی تھی لیکن وہ بہت بری طرح زخمی نہیں تھے۔ بات چیت کررہے تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کہاں چلیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ریلوے ہسپتال کناٹ پلیس لے چلو۔ ہم انہیں وہاں لے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے فوراً معاملہ سنبھال لیا۔ میں اس بات کو بھول بھی گیا تھا لیکن اچانک مجھے ایک فون آیا کہ میں وہی شخص کو جسے آپ نے ریلوے ہسپتال پہنچایا تھا۔ میں ریلوے میں ڈی آئی جی ریلوے پولیس ہوں۔ میں آپ کا اور آپ کی بیٹی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ بھی یادنہیں کہ میں نے انہیں اپنا فون نمبر دیابھی تھا۔ خیر! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ سبھی کا پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ اگر آپ سڑک پر کسی زخمی کو دیکھیں تو بغیر سوچے سمجھے پہلے اسے ہسپتال پہنچائیں۔ سب کام پولیس پر نہ چھوڑیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟