16 دسمبر کا حادثہ آٹو و ڈی ٹی سی بس نہ ملنے کے سبب ہوا

16 دسمبر کی رات کو وسنت وہار میں جو آبروریزی کی واردات ہوئی اس کی ایک خاص وجہ دہلی میں ان آٹو رکشا والوں کی منمانی اور تاناشاہی اور پبلک ٹرانسپورٹ جس میں خاص کر بسیں شامل ہیں، کی ناکامی ذمہ دار مانی جاسکتی ہے۔ وہ بدقسمت لڑکی انامیکا اور اس کا دوست ان آٹو رکشا والوں سے گڑگڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہمیں ہماری منزل پر لے چلو، لیکن ایک بھی آٹو والا تیار نہیں ہوا۔ رات کو اکثر یہ ہی دیکھا گیا اول تو آٹو والا جہاں آپ جانا چاہتے ہیں وہاں جانے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر تیار ہوتا بھی ہے تو اتنے اناپ شناپ پیسے مانگتا ہے کے آپ اس کے لئے تیار ہی نہیں ہوسکتے۔ رہا سوال بسوں کا تو سرکار اور انتظامیہ بھلے ہی دعوے کچھ کرے لیکن رات10 بجے کے بعد ایک آدھ ہی بس ملتی ہے۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ نہ تو ان آٹو والوں پر کوئی لگام کسی جارہی ہے اور نہ ہی بسوں کے نظام کو بہتربنانے میں ٹھوس قدم اٹھایا جارہا ہے۔ ٹرانسپورٹ قواعد کو طاق پر رکھ کر تمام روٹوں پر چلنا آج زیادہ تر آٹو چالکوں کی روز مرہ کی عادتوں میں شمار ہوگیا ہے۔ ایسے میں مسافروں کو بیحد دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ہزاروں آٹو چالک ایسے ہیں جن کے میٹر خراب پڑے ہوئے ہیں۔ایسے میں ڈرائیوروں کے ذریعے مسافروں سے منہ مانگا کرایہ وصولا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں آٹو چالک تو شام سے ہی نائٹ چارج وصولنا شروع کردیتے ہیں۔ کارروائی کی کوتاہی میں ایسے چالکوں کے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں۔ جب مسافروں کے ذریعے پریشان ہونے پر ایسے آٹو رکشا چالکوں کی شکایت ہیلپ لائن نمبر پر کی جاتی ہے تو معاملے کو لیکر کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ ٹریفک پولیس ابھی ایسے آٹو چالکوں کو لیکر سنجیدہ دکھائی نہیں پڑتی۔ گینگ ریپ کے بعد ہوئی کرکری سے پریشان ڈی ٹی سی نے جہاں آناً فاناً میں اپنی ڈیڈپڑی نائٹ سروس کو نہ صرف چالو کردیا بلکہ اس میں ہوم گارڈ جوان تعینات کردئے ہیں۔ وہیں رات10 بجے تک چلنے والی بسوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ لیٹ نائٹ بسیں آج بھی لوگوں کو وقت پر نہیں مل رہیں۔ یہ بات عورتوں کو زیادہ پریشان کرتی ہے۔ انہیں صرف بس کے انتظار میں بس اسٹینڈ پر کھڑا رہنا پڑتا ہے بلکہ اکیلا ہونے پر بھی منچلوں کی چھینٹا کشی جھیلنی پڑتی ہے۔ زیادہ تر سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والی خاتون ملازم صبح7 سے10 بجے کے درمیان گھر سے نکلتی ہیں اور جن کی ڈیوٹی شام6 بجے سے10 بجے کے درمیان ہوتی ہے تو بسوں کے لئے گھنٹوں اسٹاپ پر انتظار کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ورکنگ کلاس عورتوں کا کہنا ہے کہ کسی روٹ کی بس جہاں لگاتار آتی جاتی ہے وہیں کہیں روٹوں پر تو گھنٹوں تک بسوں کے درشن نہیں ہوتے۔ ایسے میں ڈی ٹی سی بس نہ ملنے پر انہیں مجبوراً پرائیویٹ بسوں میں جانا پڑتا ہے۔ ایسے میں کب کس عورت کے ساتھ کیا انہونی ہوجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دہلی کے زیادہ تر روٹوں پر بسوں میں یہ ہی پریشانی ہے۔ سرکار نہ انتظامیہ اور عدالتوں کو اس بنیادی مسئلے پر توجہ دینی ہوگی۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہیں چلتا رہا تو نہ صرف خواتین مخالف جرائم بلکہ دیگر قسم کے جرائم کی وارداتیں رکنے سے رہیں۔ پتہ نہیں دہلی سرکار کا محکمہ ٹرانسپورٹ کب جاگے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟