مہلاؤں سے زیادتی میں اترپردیش نے ریکارڈ توڑا

ہمارے سماج کو کیا ہوتا جارہا ہے۔ نہ مریاداؤں کا پالن اور نہ ڈسپلن اور نہ ہی تشدد کا ٹرینڈ کچھ بھی تو نہیں پچ رہا۔پچھلے کچھ دنوں سے آبروریزی کے واقعات کا سیلاب سا آگیا ہے۔ وردی و قانون کا خوف تو ختم ہی ہوگیا ہے۔ سارے دیش میں وسنت وہار گینگ ریپ پر بحث اور مظاہر ے ہورہے ہیں اور یہ آبروریزی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ دہلی میں ہوئی درندگی کے معاملے میں ابھی عدلیہ نے کام شروع ہی کیا ہے کہ دہلی سے ملحق نوئیڈا میں ایک دلت لڑکی کو اغوا کرکے اس کے ساتھ بدفعلی اور قتل کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ نوئیڈا میں کمپنی سے ڈیوٹی کرنے کے بعد جمعہ کو یہ لڑکی گھر لوٹ رہی تھی، اگلے دن یعنی سنیچر کی صبح گھر کے پاس اس کی نیم برہنہ لاش جھاڑوں سے ملی۔ جسم پر ناخون سے کھرونچ کے نشان تھے۔ لڑکی کے والد نے بدفعلی کے بعد قتل کی رپورٹ درج کرائی ہے۔ اس سے پہلے پولیس نے معاملہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی درج کرنے کی بات کہی تھی لیکن ممبر پارلیمنٹ اور عوامی غصے کے چلتے اسے آبروریزی کی دفعہ کے تحت معاملہ درج کرنا پڑا۔ متوفی لڑکی 21 سال کی ہے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق لڑکی کی موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے جس کی ایک وجہ گلا دبانے سے بھی ہوسکتی ہے۔ اترپردیش میں قانون و انتظام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ پیلی بھیت میں کھیت پر بتھوا توڑنے گئی لڑکی کوگنے کے کھیت میں کھینچ کر ایک لڑکے نے اس سے آبروریزی کی۔ درندگی کی اس شرمناک واردات میں مددگاربنا ایک سابق پردھان۔ اس شرمناک حرکت کے دوران سابق پردھان پہرا دیتا رہا۔ جہاں آباد علاقے کی یہ 13 سالہ لڑکی جمہ کو دوپہر بعدبتھوا توڑ رہی تھی کہ تبھی گاؤں شیوپوریہ کے سابق پردھان رام کماراور اسی کے گاؤں کے انل کمار نامی دونوں شخص وہاں پہنچے۔ سابق پردھان نے طمنچہ دکھاتے ہوئے لڑکی کو روکا اور شورمچانے پر جان سے ماردینے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد دوسرے شخص انل نے لڑکی کو گنے کے کھیت میں کھینچ کر اس سے بدفعلی کی جبکہ سابق پردھان طمنچہ لیکر پہرا دیتا رہا۔ درندوں کے چنگل سے آزاد ہونے کے بعد لڑکی نے شور مچایا اور آس پاس کے کھیت پر موجود لوگ موقعہ پر پہنچ گئے۔ اترپردیش میں سرپھرے منچلوں نے عورتوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ ذرا اعدادو شمار پر نظر ڈالیں۔ اترپردیش میں یومیہ 300 عورتیں چھیڑ چھاڑ کا شکار ہوتی ہیں، پولیس نے اپنی ویب سائٹ پر یہ سچائی قبول کی ہے۔ یہ جانکاری حیرانی بڑھا دیتی ہے کہ لوک لاج کے ڈر سے عورتیں ایف آئی آر درج کرانے سے بچتی ہیں۔ یوپی پولیس کی ویب سائٹ پر عورتوں کے لئے 15 نومبر 2012ء کو شروع کی گئی ہیلپ لائن 1090 کے بارے میں بھی جانکاری دی گئی ہے۔ اس ہیلپ لائن سروس پر 1 جنوری 2013ء تک 61 ہزار عورتوں نے مدد مانگی۔ ان میں14 ہزار سے زیادہ معاملے چھیڑ خانی اور فقرے کسنے کے پائے گئے۔ ان میں سے10 ہزار معاملے درج کئے گئے۔ ان عورتوں نے فون پر تو شکایت کی تھی لیکن متعلقہ تھانوں میں رپورٹ نہیں درج کرائی۔ جب عورتوں پر بڑھتے جرائم کے بارے میں اترپردیش کے نوجوان وزیر اعلی اکھلیش یادو سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا آبروریزی کے معاملوں میں کوتاہی برتنے والے پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور متاثرہ عورتوں و لڑکیوں کے رشتے داروں کو مدد دی جائے گی۔ قانون و نظام سے کھلواڑ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟