آئیے ملئے مجلس اتحاد المسلمین کے ممبر اسمبلی اویسی سے!

آج ہم آپ کا تعارف مجلس اتحاد المسلمین کے ممبر اسمبلی اکبرالدین اویسی سے کرواتے ہیں۔ آندھرا پردیش اسمبلی میں اپنی پارٹی کے لیڈر 22 سالہ اویسی پر چار مینار علاقے میں واقع بھاگیہ لکشمی مندر کے جھگڑے کو لیکر بھڑکیلی تقریریں کرنے کا الزام ہے۔ اسے لیکر ان کے خلاف دیگر معاملے بھی ہیں۔ حیدر آباد اور دیگر مقامات پر ان کے خلاف کیس درج ہوا ہے۔ دراصل حیدر آباد میں اولڈ سٹی میں قریب40 سال سے بھی زیادہ سے اویسی خاندان کا سیاسی دبدبہ بنا ہوا ہے۔ صلاح الدین اویسی کے ذریعے شروع کردہ مجلس اتحاد المسلمین پارٹی نے حیدر آباد اولڈ سٹی کو اپنا گڑھ بنا رکھا ہے۔صلاح الدین اویسی کی سیاسی وارثت کو ان کے دونوں بیٹے اسدالدین اور اکبرالدین اویسی سنبھالے ہوئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ حیدر آباد کے پرانے شہر سے ایم آئی ایم ہمیشہ کم سے کم 7 مسلم ممبران اسمبلی کو جتا کر ودھان سبھا میں بھیجتی رہی ہے۔ لیکن ممبر پارلیمنٹ صرف اویسی خاندان کے ہی ہوتے ہیں۔ اکبرالدین کی بھڑکیلی تقریروں کو میں نے سنا اور میرے رونکٹے کھڑے ہوگئے۔ میں ان جناب کو پہچانتا نہیں اس لئے میں نے پہلے سوچا کے شاید یہ پاکستان میں لشکر طیبہ کا مقرر بھارت کے خلاف زہر اگل رہا ہے لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ نہیں یہ تو ہمارا بھائی ہندوستانی ہے۔ اور یہ زبان بھی حیدر آبا د کی ہے تو میں حیرت میں پڑ گیا۔ میں اس کی تقریر کے بارے میں کچھ بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔اس طرح کی بھڑکیلی ،بے تکی تقریریں انہوں نے کیوں دیں؟ ووٹ بینک کی سیاست کا میعار کس حد تک گر چکا ہے اس تقریر سے پتہ چلتا ہے۔ تالیوں اور نعروں کے ساتھ اس تقریر کا خیر مقدم کیا جانا بھی تعجب کا موضوع ہے۔ یعنی بھائی بھائی میں اس قدر دشمنی پیدا کی جارہی ہے اور فرقہ وارانہ نفرت کا زہر گھولا جارہا ہے۔ قریب 15 روز پہلے اویسی نے اپنی تقریر میں ہندوستانی مملکت اور اس کے انتظامیہ ،یہاں تک کے اس کی عدلیہ کو بھی جس طرح کھلے عام چنوتی دی تھی تبھی اگر آندھرا سرکار اور پولیس انتظامیہ نے ان کے خلاف کارروائی کرلیتی تو معاملہ یہاں تک نہ بگڑتا۔ لیکن سرکار نے گرفتاری تو دور غیرضمانتی دفعات کے تحت مقدمے درج کرنے کے باوجود پولیس اویسی کو بچانے کا راستہ دیتی رہی اور وقت وقت پر سوشل میڈیا سے ناراضگی ظاہر کرنے والی سرکار کو بھی خیال نہیں آیا کہ اویسی کا ملک دشمن بھاشن یو ٹیوب و فیس بک پر کھلے عام دیکھا اور سنا جارہا ہے۔ اس معاملے میں اتنی ہی قابل مذمت اور ان خود ساختہ سیکولر پارٹیوں و ان کے لیڈروں کی خاموشی بھی ہے ، جو فرقہ وارانہ خطرے کی آہٹ پاتے ہی بھڑک اٹھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا رویہ ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ فرقہ واریت کے خلاف نام نہاد مہم نہ صرف نقلی ہے بلکہ صرف انہی معاملوں میں آواز اٹھاتے ہیں جو ان کے ووٹ بینک کی سیاست میں کھرے اترتے ہیں۔ اویسی کا جرم اس لئے بھی قابل قبول نہیں کیونکہ وہ ایک عوامی نمائندے ہیں اور ایسے میں یہ ضروری ہے کہ بھڑکیلی تقریر پر لگی دفعات کے مطابق سزا تو وہ بھگتتے ہی ،ساتھ ساتھ ان کی ممبر اسمبلی بھی فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کے لئے ختم کی جائے۔ دور اندیشی برتتے ہوئے اگر آندھرا سرکار فوری کارروائی کرتی تو بگڑتے ماحول سے شاید بچا جاسکتا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟