کوئلہ گھوٹالے سے توجہ ہٹانے اور بے عملی کا داغ مٹانے کیلئے اٹھائے گئے قدم


ہمیں لگتا ہے کہ منموہن سنگھ سرکار اور کانگریس پارٹی نے اب یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ بغیر کسی کی پرواہ کئے وہ سارے قدم اٹھائیں گے جو انہیں ضروری لگتے ہیں اور وہ کئی وجوہات سے نہیں اٹھا پارہے تھے۔ پہلے ڈیزل کی قیمت میں اضافہ، اگلے دن خوردہ بازار میں ایف ڈی آئی کا فیصلہ۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ ڈیزل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے عوامی ردعمل سے سرکار اور کانگریس واقف نہیں تھی؟ کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس سے جنتا میں ہائے توبہ مچے گی؟ اسے معلوم تھا لیکن پھر بھی اس نے ایسا کیوں کیا؟ ہمیں لگتا ہے اس کے پیچھے ایک بہت بڑا مقصد سرکار کا اور کانگریس پارٹی کا کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے پر لگی جنتا کی توجہ ہٹانا تھا اور اس کے لئے یہ ضروری تھا کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے جس سے جنتا نئے مسئلے میں الجھ کر رہ جائے اور کوئلہ گھوٹالے کو بھول جائے۔ سرکار پر بے عملی کا بہت بڑا الزام لگ رہا تھاتمام ملکی غیر ملکی میڈیا کھل کر کہنے لگا تھا کہ یہ سرکار بالکل پنگو ہوچکی ہے اور اس میں آگے بڑھنے کی نہ کوئی قوت ارادی ہے اور نہ ہی حوصلہ۔ وزیر اعظم ناکارہ ہوچکے ہیں۔ پالیسی ساز فیصلوں پر عمل نہ کرنے کے الزامات کو مٹانے کے لئے منموہن سرکار نے پہلے ڈیزل اور پھر ایل پی جی میں آگ لگادی اور اس آگ میں گھی ڈالنے کے لئے خوردہ بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا فیصلہ کرلیا۔ اس طرح سے اقتصادی اصلاحات کی رفتار بڑھانے کے لئے سخت اشارے دینے کے ساتھ ساتھ سرکار اب کچھ اور سخت فیصلے لینے کے لئے کمر کس چکی ہے۔ ڈیزل اور رسوئی گیس کے جھٹکے سے اپوزیشن ہی نہیں یوپی اے سرکار کی کئی اتحادی پارٹیوں کو بھی فیصلہ ناگوار گذرا ہے۔ خاص طور پر ترنمول کانگریس اور سماجوادی پارٹی کو ان کے خلاف احتجاج ضروری لگتا ہے۔ کیا ممتا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ سیاسی معاملوں کی کیبنٹ کمیٹی کی میٹنگ میں ڈیزل ، ایل پی جی کے دام بڑھانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کیونکہ میٹنگ کا ایجنڈا ممتا کو بھی بھیجا گیا تھا اس کے باوجود ممتا نے دام بڑھانے کا الزام سرکار پر لگادیا ہے کہ اس نے اس فیصلے سے پہلے انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔ ممتا کے اس بیان پر بھروسہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ منموہن سرکار اقتصادی سستی کو توڑتے ہوئے بازار کو سہارا دینے کی آخری کوشش کررہی ہے۔ مانا جارہا ہے کہ بازار کی حالت دیکھتے ہوئے سرکار نے صحافیوں کو تھوڑا بھروسے میں لیتے ہوئے ان کے احتجاج کو برداشت کرنے کا بھی فیصلہ لے لیا ہے۔ چاہے وہ ممتا ہوں ، چاہے ملائم یا کروناندھی ، سبھی نے دکھاوے کے لئے احتجاج کیا ہے۔ ان کے تیوروں میں کوئی تلخی دکھائی نہیں دی۔ سرکار اور کانگریس اس بات سے اچھی طرح واقف تھیں کہ ڈیزل ۔ ایل پی جی پر ہائے توبہ مچے گی۔ اس کا ایک ثبوت ہے منگل کو وزیر اعظم کی رہائشگاہ پر ہوئی کور گروپ کی وہ اہم میٹنگ جس میں یہ فیصلہ لیا گیا۔ میٹنگ میں سونیا گاندھی، منموہن کے علاوہ کور گروپ کے مستقل ممبر اے کے انٹونی، سشیل کمار شنڈے، پی چدمبرم اور سونیا کے سیاسی سکریٹری احمد پٹیل کے علاوہ وزیر پیٹرول جے پال ریڈی خاص طور سے بلائے گئے تھے۔ بتاتے ہیں کہ وزیر دفاع اے کے انٹونی نے اضافے کی نہ صرف کھل کر مخالفت کی ہے بلکہ بگڑتی ساکھ پر جم کر حملے کئے اور سونیا ۔ منموہن چپ چاپ سنتے رہے لیکن آخر میں گروپ نے وہ ہی کیا جو پہلے سے طے تھا۔ کور گروپ کے اجلاس میں ڈیزل ایل پی جی کے دام بڑھانے کے فیصلے کو ٹالنے کے لئے انٹونی نے سب سے زیادہ دباؤ بنایا تھا۔ یہ پہل تو وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے سمیت کئی لیڈروں نے اس کی زوردار حمایت کی لیکن وزیر اعظم جے پال ریڈی، پی چدمبرم جو قیمتیں بڑھانے کی وکالت زور شور سے کررہے تھے آخر میں وہ ہی حاوی رہے اور دام بڑھا دئے گئے۔ ہمیں تو اب لگتا ہے یہ سرکار پوری طرح سے مایوس ہوچکی ہے اور ’کرو یا مرو‘ کی پالیسی پر اتر آئی ہے۔ ممکن ہے کے آنے والے دنوں میں وہ مزید سخت فیصلے لے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟