دیش میں فرقہ وارانہ سدبھاؤ بگاڑنے کے پیچھے سازش


جس طریقے سے اترپردیش کے کچھ شہروں میں فساد ہورہا ہے اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ کچھ طاقتیں دیش میں بدامنی، فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے میں لگی ہوئی ہیں۔ جمعہ کو غازی آباد کے مسوری علاقے کے ادھیاتمک نگر اسٹیشن کے پاس ایک مذہبی کتاب کے صفحے پر اعتراض آمیز الفاظ لکھے ہونے کی افواہ پھیلی۔ جس کی شکایت مسوری پولیس سے کی گئی۔ شام کو مسوری میں معاملہ درج کیا جارہا تھا کہ اسی درمیان بھاری تعداد میں اس فرقے کے لوگ تھانے پہنچے اور ہنگامہ شروع کردیا۔ مشتعل بھیڑ نے این ایچ 24 کو جام کردیا اور توڑ پھوڑ ،آتشزنی کی۔ پولیس نے حالات پر قابو پانے کے لئے طاقت کا استعمال کیا تو بھیڑ کی طرف سے پتھراؤ اور گولہ باری ہونے لگی۔ تب پولیس نے فائرننگ کی، دونوں طرف سے فائرنگ اور پتھراؤ میں 6 لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں ناہل کے باشندے آصف،پبلوڑا کے باشندے وحید اور مسوری کے وسیم کے طور پر ان کی شناخت ہوئی ہے۔ وسیم بی ٹیک کا طالبعلم تھا۔ فساد زدہ علاقے کے دورہ کے دوران ایس بھی دیہات جگدیش شرما، دروغہ رمیش چند، ہیڈ کانسٹیبل روپ چند، کانسٹیبل جنیشور سینی سمیت دوسرے فریق کے کئی لوگ زخمی ہوگئے۔ فی الحال حالات قابو میں ہیں لیکن اس واردات پر جو سوال کھڑے ہوئے ہیں وہ ضرور بڑے ہیں اور اہم بھی ہیں۔ آسام تشدد ، پھر ممبئی میں جھگڑا اور اسی سلسلے میں شمال مشرق کے لوگوں کی ہجرت کے بعد اس بات کے پختہ اشارے تھے دیش کی آب و ہوا میں زہر پھیلانے کی کوشش جاری ہے۔ بعد میں دیش کے کئی حصوں میں خاص کر اترپردیش میں ایسے واقعات ہوئے جن سے یہ اندیشہ ہوا کہ کچھ طاقتیں دیش کے اندر اور باہر ایسی ہیں جو ہمارے فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلے15 روز میں اترپردیش کی سرحد سے لگے دہلی کے میور وہار فیز I- میں معمولی جھگڑے کے بعد زبردست جھگڑا اور آتشزنی ہوئی۔ اب غازی آباد میں یہ جھگڑا ہوا۔ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تمام پختہ احکامات کے بعد آخر کیا وجہ رہی کہ ایک چھوٹی سی چنگاری کو جان لیوا آگ میں بدلنے سے نہیں روکا جاسکا؟ سوال ہماری خفیہ ایجنسیوں پر بھی اٹھتا ہے کہ کیا وجہ ہے انہیں بروقت ان سازشوں کا پتہ نہیں ہوتا؟ ساتھ ہی مقامی انتظامیہ کیا سو رہی تھی؟ اسے اس ماحول کا پتہ نہیں چلا؟ سپا کی اکھلیش یادو کی حکومت ریاست میں لا اینڈ آرڈر بنائے رکھنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے اور ان عناصر کا پتہ چلانا انتہائی ضروری ہے جو دیش میں فرقہ وارانہ بھائی چارہ بگاڑنے کی پوری کوشش کررہی ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج جنتا میں زبردست ناراضگی ہے اور کوئی بھی موقعہ ملے وہ سرکار کے خلاف سڑکوں پر اترکر جھگڑا اور آگ زنی کرنے سے نہیں چوکتے کچھ حد تک پولیس کا خوف بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ پولیس کو بھی ہم قصور وار نہیں کہہ سکتے کیونکہ سیاستداں انہیں صاف حکم دینے سے کتراتے ہیں۔ اس ووٹ بینک کی سیاست نے دیش کو تباہ کردیا ہے۔ لگتا ہے کہ ہم ایک جوالہ مکھی پر بیٹھے ہوئے ہیں جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟