اس بار ٹی۔20 ورلڈ کپ کسی کی بھی جھولی میں جا سکتا ہے!


آخر انتظار ختم ہوگیا ہے ۔ کرکٹ کے شائقین اور پوری دنیا میں ایک بار پھر کرکٹ کا بخار چڑھنے لگا ہے۔ ٹی۔20 ورلڈ کپ 2012 کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس مرتبہ اس کا انعقاد سری لنکا میں ہورہا ہے۔ اگلے 20 دنوں تک 12 ٹیموں کے درمیان دلچسپی کی نئی داستاں لکھی جائے گی۔ ایک وکٹ سے میچ کا رخ بدلے گا تو ایک رن سے جیت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کچھ میچ سپر اوور تک بھی جاسکتے ہیں۔ گیند اور بلے کی جنگ میں گلیمر کا تڑکا بھی لگے گا۔ مطلب تفریح کی پوری گارنٹی ہوگی۔ کئی نئے ریکارڈ بنے ہیں کئی پرانے ٹوٹیں ہیں۔ اس برصغیر کی پچ ہمیشہ سے دلچسپ کرکٹ کے لئے مشہور رہی ہے۔ لہٰذا اس مرتبہ ٹی۔20 ورلڈ کپ بھی دلچسپ ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹی۔20 ورلڈ کپ کی ونر ٹیم کو10 لاکھ ڈالر ملیں گے اور رنر ٹیم کو5 لاکھ ڈالر۔ سیمی فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کو2.50 لاکھ ڈالر ملیں گے۔ اس بار کا ٹی۔20 ورلڈ کپ شاید سب سے کھلا ٹورنامنٹ ہے۔ اس بارٹی۔20 ورلڈ کپ کا خطاب کون جیتے گا یا پھر کونسی دو ٹیمیں فائنل میں پہنچیں گی ، اس کا اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے۔ ویسے بھی ٹی۔20 کھیل میں کسی طرح کی قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی کیونکہ کھیل میں کئی دلچسپ اتار چڑھاؤ دیکھنے کوملتے ہیں۔ میچ کے دن کونسی ٹیم اچھا کھیل دکھا سکتی ہے اس پر اس دن ہار جیت منحصر کرتی ہے۔ کاغذوں میں بیشک آپ بہت مضبوط نظر آئیں لیکن اس دن آپ اچھا نہیں کھیلو گے تو ہار جاؤگے۔ پہلے چمپئن ٹیم انڈیا سری لنکا کی دھیمی پچوں میں ضرور ایک باپھر خطاب اپنے نام کرنے کی پوری کوشش کرے گی لیکن پاکستان کے ساتھ کھیلے پریکٹس میچ میں ایک بالر کی کمی محسوس ہوئی۔ سات بلے بازوں کو کھلانے کا کوئی تک نہیں تھا۔ ایک بلے باز کو کم کرکے ایک سپنر لینا بہتر ہوگا۔ پاکستانی ٹیم غیر متوقعہ کھیل دکھانے میں ماہر ہے۔محمد حفیظ کی ٹیم اس بار بہت اچھا کھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔ آسٹریلیا کو ہراکر یہاں پہنچی اس ٹیم کا حوصلہ بڑھا ہوا ہے۔ بھارت کو پریکٹس میچ میں ہراکر بھی پاکستان کا حوصلہ بڑھا ہوگا۔ میزبان سری لنکا بھی ایک متوازن ٹیم ہے۔ اچھے دھنواں دھار گیند بازوں کے ساتھ ملنگا جیسا ٹی۔20 بالر بھی ان کے پاس ہے۔ ویسٹ انڈیز میں کرس گیل اگر چل گئے تو اس دن ان کے سامنے کئی بالر ، ٹیم ٹک نہیں سکتی۔ آسٹریلیا بھی اچھی ٹیم ہے۔ جارج بیلی کی کپتانی میں آسٹریلیائی ٹیم ابھی تک ٹی۔20 میں اپنا لوہا نہیں منوا سکی۔ چمپئن انگلینڈ کو پچھلے مین آف دی ٹورنامنٹ کے کیون پٹرسن کی کمی کھلے گی۔ تنازعوں سے گھرا رہنے والا یہ بگ ہٹر ٹی۔20 اور ون ڈے کرکٹ سے سنیاس لے چکا ہے۔ انگلینڈ کرکٹ نے ٹی۔20 کھیلتے رہنے کی اس کی گزارش کو ٹھکرادیا تھا۔اے بی ڈیبلیرس کی جنوبی افریقہ کی ٹیم نے ابھی تک ایک بھی آئی سی آئی ٹرافی نہیں جیتی۔ دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لئے بدنام ساؤتھ افریقہ اس بار چوکرس کا داغ دھونا چاہے گی۔ ویسٹ انڈیز اور نیوز لینڈ چھپے رستم ثابت ہوسکتے ہیں۔ کریبیائی ٹیم ضرور چاہے گی کہ کرس گیل آئی پی ایل فارم میں رہیں جس کے دم پر انہوں نے قومی ٹیم میں واپسی کی تھی۔ کریبیائی ٹیم منظم تھی لیکن جب سے گیل نے واپسی کی ہی ٹیم نے پچھلے کچھ مہینوں میں اچھے نتیجے دئے ہیں۔ نیوز لینڈ کے پاس ڈینیل وٹوری جیسے اسپنر ہیں جسے پچ سے مدد ملے گی۔ افغانستان ،آئرلینڈ کے علاوہ زمبابوے بھی اچھا کھیلیں گے۔ اب بات کرتے ہیں ٹیم انڈیا کی ۔ بھارتیہ ٹیم 2007 ء میں افتتاحی ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد سے امیدوں پر کھری نہیں اتری۔ بیشک ان کے پاس اچھے بلے باز ہیں جو ایک اچھا اسکور کھڑا کرسکتے ہیں لیکن ہماری بالنگ میں بھی تو اتنا دم ہو کہ ہم حریف ٹیم کو ان کے رنوں کو روک سکیں۔ پریکٹس میچ میں جس طریقے سے پاکستانی بلے بازوں نے رنوں کا پیچھا کیا ہم انہیں فاضل رن لینے سے نہیں روک سکے جودونوں ٹیموں کے درمیان ہار جیت کا فرق پیدا کرتے ہیں۔ یووراج ٹیم کا ٹیم میں لوٹنا بھارتیہ ٹیم کے لئے اچھا اشارہ ہے۔ یووی وہی کھلاڑی ہیں جنہوں نے انگلینڈ کے کھلاڑی اسٹووڈ براڈ کی چھ گیندوں میں چھ چھکے لگا کر میچ کا رخ پلٹ دیا تھا۔ براڈ اب انگلینڈ ٹیم کے کپتان ہیں۔ بھارت کو گروپ اے اسٹیج میں ہی انگلینڈ سے کھیلنا ہے اور یہاں دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس بار براڈ کے پاس مسکرانے کا موقعہ ہوگا یا پھر یووراج پھر ان کی گیند پر چھکے اڑائیں گے؟ اس بار ٹورنامنٹ میں مقابلہ برابری کاہے۔ کوئی بھی دعویدار نہیں ہے اور کسی خاص دن کئے گئے ٹیم کا اچھا کھیل ہی اہمیت رکھتا ہے۔ نہ کہ ان کا وقار اور پیپر پر دعویداری۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟