اگر دیوگوڑا وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟


یہ کہنا ہے سماجوادی پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو کا۔ سپا کی کولکتہ میں قومی ایگزیکٹو کے دو روزہ اجلاس کے بعد ملائم سنگھ یادو نے کہا تیسرے مورچے کی تشکیل چناؤ بعد ہوگی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ کہہ کر سنسنی پھیلا دی جب دیو گوڑا وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں۔ لیکن پارٹی اس بات کا پروپگنڈہ نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا وہ سیاست میں ہیں اور سیاست کررہے ہیں کوئی سادھو سنت نہیں اور سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ سماجوادی پارٹی نے کولکتہ میں منعقدہ اپنی قومی کانفرنس کے ذریعے سیاسی طبقے کو اپنی حیثیت کا احساس کرانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اترپردیش سے باہر کانفرنس کرکے انہوں نے یہ سندیش دینا چاہا کہ وہ ایک قومی پارٹی ہے جس کی بنیاد دیگر ریاستوں میں ہے۔ ملائم نے جس طرح بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی سے اپنی قربت کا اظہار کیا اور جوتی بسو کے عہد کی تعریف کی اس سے ان کی رائے ظاہر ہے کہ وہ یوپی اے اور این ڈی اے اتحادی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ لیفٹ سے بھی اچھے تعلقات بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مرکز کے اقتدار میں پہنچنے کے لئے سارے متبادل کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔ اقتدار کی سیاست میں اترپردیش ہمیشہ فیصلہ کن کردار نبھاتا رہا ہے۔ لوک سبھا کے لئے80 سیٹوں کے تجزیئے بدل سکتی ہے۔ پھر بہار، بنگال ، مہاراشٹر، آندھرا ، کرناٹک کا ساتھ مل جائے تو کوئی بھی پارٹی مرکز میں اقتدار سنبھال سکتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملائم اپنی سائیکل کو ممبئی سے کولکتہ دوڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اترپردیش کی باگ ڈور اپنے صاحبزادے اکھلیش یادو کو سونپ کر اب وہ لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا خواب لے کر قومی سیاست میں ہر داؤں کھیل رہے ہیں۔ وہ لوک سبھا چناؤ بھی2014ء سے پہلے یعنی جلد سے جلد کروانا چاہتے ہیں کیونکہ فی الحال اترپردیش میں ان کے پیر مضبوط ہیں۔ اترپردیش میں 50 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا نشانہ بنا کر وہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس، چندرا بابو نائیڈو کی تیلگودیشم اور دیگر علاقائی پارٹیوں کے ساتھ تال میل کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ مہنگائی اور کرپشن کے اشو پر وہ مرکز کی کانگریس سرکار کے خلاف مسلسل مہم جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیفٹ فرنٹ کے ساتھ نظریاتی رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور سیکولر ساکھ بنا کر مرکز میں ضرورت پڑنے پر کانگریس کا ساتھ لینے کا امکان بنائے رکھے ہیں۔ یقینی طور سے ملائم کانگریس اور بھاجپا کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ تیسرے مورچے کا نام وہ ابھی نہیں لینا چاہتے کیونکہ اقتدار کے تجزیئے چناؤ نتائج کی بنیاد پر ہی بننے والے ہیں۔ لگتا ہے ملائم نے بھانپ لیا ہے کہ اب کانگریس کے ساتھ جڑے رہنے سے انہیں سیاسی طور پر ڈوبنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں نئے تجزیئے کے تول مول کا دور تیز ہوسکتا ہے۔ ملائم اب بھانپ چکے ہیں کہ کانگریس جنتا کے درمیان ناپسندیدہ ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف بھاجپا اپنے آپ کو کانگریس کے متبادل کے طور پر ابھی تک قائم نہیں کرپائی ہے۔ ایسے میں اگر یوپی اے اور این ڈی اے میں پریشانی محسوس کررہیں اتحادی پارٹیوں کو وہ اپنے ساتھ لا سکیں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟