ملائم۔ ممتا کا ڈرامہ :یہ بادل گرجتے ہیں برستے نہیں


کرپشن اور مہنگائی، ایف ڈی آئی کے ریٹیل کے مدے پر منموہن سرکار کے ناکارہ ثابت ہونے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریں وسط مدتی چناؤ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ بھاجپا امیدرکھے ہوئے ہے کہ یوپی اے کی اتحادی پارٹیاں دیر سویر اس سرکار سے حمایت واپس لے لیں گی اور یہ سرکار گر جائے گی لیکن ہمیں نہیں لگتا ایسا ہوگا۔ ممتا بنرجی، ملائم سنگھ یادو، مایاوتی اور کروناندھی سبھی ایک ساتھ ایک جھٹکے میں حمایت واپس لے لیں تو سرکار کو صحیح معنی میں خطرہ ہوسکتا ہے لیکن تب بھی سرکار فوراً گرنے کے آثار نہیں ہیں۔ سرکار ایک منٹ کے لئے گربھی جائے تو کسی اور کی سرکار بننے کے آثار نہیں ہیں۔ ان سب کے پیش نظر بھی کانگریس اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت خطرہ مول لیا ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی اے کی کوئی اتحادی پارٹی سرکار گرانے کے حق میں نہیں ہے۔ پھر بھی حمایت واپسی کا من بنا لیا جاتا ہے تو سرکار کی طاقت کی آزمائش پارلیمنٹ میں ہی ہوسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس ابھی تین مہینے دور ہے۔ پہلے سیشن اگر بلانا ہے تو ممتا، ملائم ، مایا اور کروناندھی کے لیڈروں کی پارٹیوں کو مل کر صدر سے درخواست کرنی پڑے گی۔ کیا لیفٹ پارٹیاں اور سماجوادی پارٹی فرقہ پرست بی جے پی کے ساتھ کھڑی ہوں گی، کیا ممتا لیفٹ کا ساتھ دیں گی، کیا بسپا۔ سپا ایک خیمے میں ہوں گے؟ اتنے سارے سوال سرکار کو گرانے سے بچا سکتے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ نہ تو ممتا حمایت واپس لینے والی ہیں اور نہ ہی سپا۔ ہاں این ڈی اے یہ ضرور امید رکھے ہوئے ہے کہ سرکار گر سکتی ہے۔ سپا چیف ملائم سنگھ یادو ہمیشہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ یاد ہے کہ ایٹمی معاہدے اور صدارتی چناؤ کا قصہ دونوں نے بار بار دھمکی دی اور بعد میں یوپی اے کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ لوکپال پر بھی سرکار کو بحران سے نکال لے گئے تھے۔ دراصل کھیل تو 2014ء کی کرسی کا ہے۔ ملائم سرکار گرانے کے بعد 2014ء کا انتظار کرنا چاہیں گے۔ اس درمیان یوپی اور تھرڈ فرنٹ کے درمیان اپنی طاقت بڑھاتے رہیں گے تب تک منموہن سرکار سے پیسے کی سودے بازی کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ لیتے رہیں گے۔یہ ہی انہوں نے صدارتی چناؤ کے دوران کیا۔ پہلے دھمکی دیناپھر نرم ہوجانا ممتا بنرجی کی پرانی عادت ہے۔ فی الحال کئی ایسی وجوہات نظر آرہی ہیں کہ جن کے چلتے وہ منموہن سرکار کو گرانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ان کے اپنے ہی ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ ترنمول کے 19 ممبر پارلیمنٹ ہیں لیکن کبیر سمن اور دنیش ترویدی ہمیشہ الگ سمت میں چلے ہیں۔ ترویدی کو اسی کے چلتے ریل وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔پھر ممتا کر ملائم پر اب بھروسہ نہیں رہا۔ صدارتی چناؤ میں ملائم پہلے تو ممتا سے کہتے رہے کہ پرنب کے نام کی مخالفت کرو لیکن بعدمیں خود ہی پرنب دادا کے لئے راضی ہوگئے۔ ممتا کی ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ وہ تھرڈ فرنٹ میں نہیں جاسکتیں۔ ممتا کسی بھی قیمت پر لیفٹ کو ساتھ نہیں لے سکیں۔ بھاجپا لیڈر شپ والے این ڈی اے میں جاکر ممتا مسلم ووٹ بینک کو کھونا نہیں چاہتیں۔ ممتا کی پہلی ترجیح بنگال ہے اور اپنی سرکار چلانے کے لئے پیسوں کی ضرورت دہلی سے ہی پوری ہوسکتی ہے۔ ایسے میں یوپی اے ایک واحد متبادل بچتا ہے۔ اسی سال ستمبر میں بنگال میں پنچایت چناؤ ہیں ان میں اکیلے چناؤ لڑنے والی ہیں۔ جیت کے قوی امکانات ہیں۔ وہ لیفٹ کو مضبوط ہونے کا موقعہ دینا نہیں چاہتیں۔ اب بات کرتے ہیں بہن جی کی۔ مایاوتی کی پہلی ترجیح ان کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ مایاوتی نے کہا ہے وہ اپنے موقف کے بارے میں اکتوبر میں فیصلہ کریں گی۔ بس یہ ہی بات چونکانے والی تھی کیونکہ مایا خود اورفوراً فیصلے کرتی ہیں۔ کسی سے پوچھ کر نہیں۔ ایٹمی معاہدے اور لوکپال پر سرکار کو بچانا اس کی مثال ہے۔ وہ پہلے دیکھنا چاہتے ہیں کہ ملائم کیا فیصلہ لیتے ہیں۔ ایف ڈی آئی کبھی بھی مایاوتی کا اشو نہیں رہا۔ ایف ڈی آئی سے ان کا تجزیہ ہے اس سے نئے روزگار کا بڑا حصہ کمزور طبقوں کو ملے گا۔ مایا اپنے بنیادی مینڈیٹ کے مفادات کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے رہیں، اب آگے کیا ہوگا؟ سودے بازی زوروں پر ہے۔ سرکار کچھ رعایت دے سکتی ہے۔ 6 ایل پی جی گیس سلنڈروں کی جگہ 8 کر سکتی ہے۔ ڈیزل میں بھی دو ایک روپے گھٹا سکتی ہے۔ دونوں ملائم اور ممتا کو نئے پیکیج مل سکتے ہیں۔ یہ بادل یوں ہی گرجتے رہیں گے برستے نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟