منزل ایک پر راستے الگ الگ: انا ہزارے


انا ہزارے نے صاف کردیا ہے کہ وہ سیاسی پارٹی بنانے کے اپنے ساتھی اروند کیجریوال کی تجویز سے متفق نہیں ہیں۔ اپنے گاؤں رالے گن سدھی میں انا نے جو اپنی تنظیم کرپشن مخالف عوامی تحریک کو سرگرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کے بعد تحریک کی دو الگ الگ سمت طے ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف اروند کیجریوال ہیں جو 2 اکتوبر کو ایک سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کرچکے ہیں تو انا اپنی پرانی غیر سیاسی تنظیم کو پھر سے سرگرم کرکے سیاست سے دور رہنے کا صاف اشارہ کرچکے ہیں۔ کرپشن مخالف عوامی تحریک انا ہزارے کی پرانی تنظیم ہے جس کے تحت انہوں نے مہاراشٹر میں کئی تحریکیں چلائیں تھیں۔ انا نے منگلوار کو کہا کیجریوال کے پارٹی بنانے کا مطلب ہوگا کرپشن سے پاک دیش بنانے کا یکساں مقصد پانے کے لئے الگ الگ راستہ اپنانا۔ انا ہزارے نے کہا میں نے طے کیا ہے کہ میں کسی سیاسی پارٹی کی تشکیل نہیں کروں گا اور چناؤ بھی نہیں لڑوں گا۔ انا سے پوچھا گیا تھا کیا کیجریوال کی نئی سیاسی پارٹی کی تشکیل میں ان دونوں کے درمیان دراڑ آگئی ہے۔ ابھی تک ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ انا ہزارے سیاسی پارٹی کے نظریئے کے خلاف ہیں یا وہ سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہونا چاہتے۔ لیکن اب شاید وہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی پارٹی سے دور رہیں گے لیکن چناؤ میں ایماندار اور آزاد امیدواروں کو حمایت دے سکتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف مورچے میں صرف یہ ہی دراڑ نہیں ہے اروند کیجریوال اور کرن بیدی کے درمیان بھی اختلافات سامنے آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ انا کی ٹیم کے اہم ممبر بھی اپنی اپنی راہ پکڑ سکتے ہیں کیونکہ کرپشن مخالف احتجاج کے علاوہ دیگر اشوز پر ان کی رائے الگ الگ نظر آرہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انا ہزارے ایک نیک نیت ،ایماندار اور محنتی شخص ہیں لیکن قومی اہمیت کے مسئلوں پر ان کا کوئی وسیع نظریہ نہیں ہے۔دوری طرف اروند کیجریوال ایک بہت زیادہ توقع رکھنے والے شخص ہیں جو عام طور پر لیفٹ کی زبان بولتے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے ایک سروے کرایا انڈیا اگینسڈ کرپشن کے ذریعے کئے گئے سروے میں نتیجہ نکلا کہ 737041 لوگوں میں سے 561701 نے ایک سیاسی پارٹی بنانے کی حمایت کی ہے۔ سروے میں 76 فیصدی نے پارٹی بنانے اور 24 فیصدی نے مخالفت میں اپنی رائے دی ہے۔ پنے میں سماجی رضاکاروں کی میٹنگ کے بعد انا شام کو نئی دہلی پہنچے۔ انہوں نے کہا جو لوگ چناؤ نہیں لڑنا چاہتے انہیں ایک بڑی تحریک شروع کرنی ہوگی جو پچھلے سال اگست میں رام لیلا میدان میں تحریک سے بھی بڑی ہو۔ انا نے تحریک کے بدلتے رنگ کو دیکھتے ہوئے جے پی تحریک کا بھی ذکر کیا۔ یہ بھی کہا کہ جے پرکاش نارائن کو کیا پتہ تھا کہ ان کی تحریک سے لالو پرساد جیسا لیڈر نکلے گا۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہمارے پاس ایسے لوگ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا میری دلیل تو یہ ہے کہ چناؤ مت لڑو۔ جو لڑنا چاہتا ہے لڑے ،آخر ہماری منزل تو ایک ہی ہے ،بیشک راستے الگ الگ ہوں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟