اس مرتبہ صدارتی چناؤ بہت پیچیدہ بن گیا



Published On 2 May 2012
انل نریندر

دیش کا اگلا صدر کون ہوگا یہ بحث آج کل سیاسی گلیاروں میں تیز ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ فیصلہ کرنے کا وقت آچکا ہے۔ صدارتی چناؤ اگلے مہینے جون میں ہونا ہے اور ابھی تک نہ تو یوپی اے نے اور نہ ہی این ڈی اے نے اور نہ ہی علاقائی پارٹیوں نے اپنا کوئی امیدوار سامنے پیش کیا ہے۔ فیصلہ خاص کر کانگریس پارٹی کو کرنا ہے لیکن مشکل یہ ہوگئی ہے کہ اکیلے اپنے دم خم پر اس مرتبہ کانگریس اپنا امیدوار جتانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پچھلی مرتبہ جیسے کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اچانک محترمہ پرتیبھا پاٹل کا نام اعلان کرکے سب کو چونکا دیا تھا اس بار ایسا نہیں ہوسکتا۔ ایک بہت بڑا فرق تب اور اب میں علاقائی پارٹیوں کی بڑھتی طاقت ہے۔ ہونے والے صدارتی چناؤ میں علاقائی پارٹیوں کی دبنگئی صاف نظر آنے لگی ہے۔ ان کی پوری کوشش اس بات پر ہورہی ہے کہ اس مرتبہ راشٹرپتی بھون میں علاقائی پارٹیوں کا امیدوار پہنچے، اس کے لئے جوڑ توڑ شروع ہوچکا ہے۔ صدارتی چناؤ کو لیکر علاقائی پارٹیوں ک ی سرگرمی آنے والے دنوں میں دونوں کانگریس اور بھاجپا کے لئے ایک نئی تشویش کا سبب بن سکتی ہے۔علاقائی پارٹیاں اپنی طاقت کو پہچان رہی ہیں اس مرتبہ ان کی حمایت کے بغیر نہ تو کانگریس اور نہ ہی بھاجپا اپنی منمانی کرسکتی ہے۔ ان کے تعاون کے بغیر رائے سینا ہلس پر کون گدی نشین ہوگا اس کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ دراصل صدارتی چناؤ کے بہانے علاقائی پارٹیاں آنے والے لوک سبھا چناؤ کے سیاسی جائزوں کی عبارت بھی لکھنے کو تیار ہیں۔ سب سے زیادہ سرگرمی سماجوادی پارٹی میں نظر آرہی ہے۔ اس کے پیچھے ان کے اپنے سیاسی مفادات ہیں۔ اترپردیش میں اسمبلی چناؤ کے بعد سپا دیش کی قومی سیاست میں تبدیلی دیکھ رہی ہے۔ دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس اور بھاجپا کی پکڑ کمزور ہوتی جارہی ہے اور علاقائی پارٹیوں کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سپا کی کوشش ہے کہ اگلا وزیر اعظم غیر کانگریس غیر بھاجپا کا بنے۔ اس کے لئے وہ ابھی سے تیاری میں لگ گئی ہیں۔ علاقائی پارٹیوں کو اکٹھا کرکے پہلے صدارتی چناؤ میں اپنی متحدہ طاقت کو آزمانا چاہتی ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب رہتی ہیں تو یقینی طور سے لوک سبھا چناؤ میں نئی نئی تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ صدارتی چناؤ میں اس مرتبہ سپا کے علاوہ ترنمول کانگریس ، این سی پی ، انا ڈی ایم کے، بسپا اور بیجو جنتا دل بھی اہم کردار نبھائیں گی۔ کسی غیر جانبدار امیدوار کے اترنے پر این ڈی اے میں شامل جنتا دل (یو) اور شرومنی اکالی دل کی حمایت بھی ان پارٹیوں کو مل سکتی ہے۔ علاقائی پارٹیوں کے اتحاد اگر کسی نام پر عام رائے بنا لیتا ہے تو دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس اور بھاجپا کو اسے یکدم مستردکرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ نمبروں کی طاقت دیکھیں تو یوپی اے کے سبھی اتحادی اگر ایک ساتھ رہیں تو ان کے پاس 40فیصدی ووٹ ہیں جبکہ اکیلے کانگریس کے پاس71 فیصدی ووٹ ہیں۔ یہ ہی حال این ڈی اے کا ہے اس کے پاس کل ملا کر31 فیصدی ووٹ ہیں جبکہ اکیلے بھاجپا کے پاس 24 فیصدی ووٹ ہیں۔ ہاں کانگریس اور بھاجپا مل کر کوئی امیدوار طے کرے تو وہ امیدوار جیت سکتا ہے۔
Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, President of India, Samajwadi Party, Trinamool congress, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟