اور اب بابا رام دیو نے پارلیمنٹ کو کوسا



Published On 5 May 2012
انل نریندر

یہ دکھ کی بات ہے کہ کچھ لوگ اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں وہ بولنے سے پہلے یہ بھی نہیں سوچتے وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا وہ ٹھیک ہے۔ پارلیمنٹ کے وقار کے مطابق میں بابا رام دیو کی بات کررہا ہوں۔ اپنی بوکھلاہٹ میں بابا رام دیو نے گذشتہ دنوں چھتیس گڑھ کے درگ میں ممبران پارلیمنٹ کو ڈکیت، قاتل اور جاہل بتا ڈالا۔ اس سے پہلے ٹیم انا کے اروند کیجریوال نے بھی پارلیمنٹ کے بارے میں اول فول بکا تھا۔ بابا رام دی درگ میں بولے کہ ممبران پارلیمنٹ میں اچھے لوگ بھی ہیں اور میں ان کا احترام کرتا ہوں لیکن وہاں ڈکیت، قاتل ،جاہل بھی بیٹھے ہوئے ہیں انہیں کسانوں ،مزدوروں اور لوگوں کی کوئی فکر نہیں ہے وہ صرف پیسے کے غلام ہیں۔ وہ انسان کی شکل میں شیطان ہیں۔ ہمیں پارلیمنٹ کو بچانا ہے۔ ہمیں کرپٹ لوگوں کو ہٹانا ہے۔ جب بابا کے اس بیان پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا تو بابا بولے میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے زیادہ تر ایم پی چور ہیں بابا کے اس بیان پر ممبران کا بھڑکنا فطری ہی تھا۔ بابا نے یہ بیان منگل کے روز دیا تھا تو بدھ کو ہی سبھی پارٹیوں کے ممبران نے ایک آواز میں کہا کہ اس طرح کی بے عزتی نا قابل قبول ہے۔ ممبران نے یوگ گورو پر جم کر بھڑاس نکالی۔ آر جے ڈی چیف لالو پرساد یادو نے کہا کہ لگتا ہے بابا کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے جبکہ کانگریسی ایم پی ستیہ ورت چترویدی نے کہا کہ رام دیو خود ڈھونگی بابا ہیں ایسے میں ان کی رائے زنی پر زیادہ توجہ نہیں دی جانی چاہئے۔ سابق وزیر خزانہ اور بھاجپا لیڈر یشونت سنہا نے کہا ممبران اور دوسرے لیڈروں کو کوسنے کا فیشن سا چل پڑا ہے۔ پارلیمانی وقار کے لئے یہ تشویشناک پہلو ہے۔ حالیہ مہینوں میں کئی بار پارلیمنٹ کی ساکھ پر سوال کھڑا ہوا ہے۔ یہ سارا معاملہ پچھلے سال اگست میں رام لیلا میدان میں انا ہزارے کی تحریک سے شروع ہوا۔ اسی وقت فلم اسٹار اوم پوری نے ممبران کے خلاف جم کر بھڑاس نکالی تھی۔ ممبران کو وہ گنوار اور چور ،نالائق تک کہہ گئے۔ جب پارلیمنٹ میں سخت تیور دکھائے گئے تو اوم پوری نے معافی مانگ لی۔ پھر آئی باری اروندکیجریوال کی انہوں نے کہہ دیا کہ زیادہ تر ایم پی آبروریز، لٹیرے اور جرائم کے کردار والے ہیں۔ اس پر پارلیمنٹ کی توہین کا معاملہ ان پر چل رہا ہے۔ اس کے بعد بھی کیجریوال پارلیمنٹ کے سامنے معافی مانگنے کو تیار نہیں ہوئے تھے یہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ ہم بابا رام دیو کی بات سے متفق نہیں ہیں۔ سارے ایم پی چور بے ایمان نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ پر مجرمانہ معاملے درج ہوں لیکن اس سے آپ سبھی کو غلط نہیں بتا سکتے۔ ایک جمہوریت میں آخری فیصلہ جنتا کا ہوتا ہے۔رام دیو اور کیجریوال جیسے تلخ نیتا جنتا سے کیوں نہیں سیدھی بات کرتے۔ لوک سبھا چناؤ ہونے والے ہیں کیوں نہیں وہ جنتا کو سمجھاتے کہ مجرمانہ ریکارڈ اور غلط کردار کے امیدواروں کو وہ ووٹ نہ دیں۔ جمہوری اداروں کو یوں گالی نکالنا صحیح نہیں ہے۔ یوں تو کیا بابا رام دیو اس بات سے انکارکرسکتے ہیں کہ سادھوؤں میں بھی ہر طرح کے بدکردار لوگ ہیں تو کیا ہم سبھی سادھوؤں کو گالی دیں؟
Anil Narendra, Baba Ram Dev, Daily Pratap, Parliament, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟