ججوں کی جوابدہی کا سوال



Published On 3 May 2012
انل نریندر

مرکزی اطلاعاتی کمیشن نے قانون وزارت کو ہدایت دی ہے کہ وہ ججوں کے خلاف شکایتو ں کے ساتھ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں بھیجے گئے خطوط کا خلاصہ کرے۔ اس قدم کے بعد ان ججوں کے نام سامنے آسکتے ہیں جن کے خلاف شکایتیں آئیں ہیں۔ انگریزی کے اخبار ''ہندوستان ٹائمز'' نے اپنی ایک جامع رپورٹ میں کہا ہے کہ پچھلے ایک سال میں کم سے کم 75 ایسی شکایتیں موجودہ ججوں کے خلاف بھارت سرکار نے چیف جسٹس اور چیف جسٹس آف انڈیا کو بھیجی ہیں جن پر انہیں اس پر مناسب کارروائی کرنے کوکہا گیا ہے اور یہ سبھی جج سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں اس وقت جج ہیں۔ محکمے نے سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف15 شکایتیں، مختلف ہائی کورٹوں کے 9 چیف جسٹس اور مختلف ہائی کورٹ کے 51 سٹنگ ججوں کے خلاف شکایتوں کو بھیجا ہے۔ زیادہ تر شکایتیں جنتا ، وکیلوں اور سماجی رضاکار تنظیموں کے رضاکاروں نے بھیجی ہیں۔ یہ جانکاری پہلی بار ایک آر ٹی آئی سے ملی ہے جو دہلی کے سبھاش اگروال نے مانگی تھی۔ وزارت نے پہلے دعوی کیا تھا وہ اس لئے شکایتوں کی کاپی نہیں دے سکتی کیونکہ ان شکایتوں کو ہندوستان کے چیف جسٹس اور متعلقہ معاملوں میں دیگر عدالتوں کے چیف جسٹسوں کو بھیجا گیا ہے۔ وزارت نے یہ بھی کہا ہے کہ وزارت ان شکایتوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھتی۔ آر ٹی آئی رضاکار سبھاش اگروال کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی اطلاعاتی کمیشن نے پایا کہ خطوط میں ان کی مانگ جائز ہے۔ کمیشن نے حکم دیا ہے کہ ایک سال پہلے کی تاریخ سے ان خطوط کو بھی دیا جائے۔ اطلاعاتی کمشنر سشما سنگھ نے وزارت کو اس طرح کا ریکارڈ رکھنے کی ہدایت بھی دی کہ درخواست دہندہ کو ان کی عرضی پر انہیں دیا جاسکے۔
ججوں کی جوابدہی پر حال ہی میں ایک میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ گلاب تلسیانی کو رشوت خوری معاملے میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اسپیشل جج وی کے مہیشوری نے تلسیانی کو سزا سناتے ہوئے کہا کہ جوڈیشیل آفس پر لوگوں کو بھروسہ ہے۔ جٓج کا برتاؤ بھی کافی اچھا ہونا چاہئے۔ سوسائٹی جج میں ان تمام خوبیوں کو دیکھنا چاہتی ہے اور ججوں میں یہ تمام خوبیاں ہونی چاہئیں۔ عدالت نے کہاانصاف کے عمل کو صاف رکھنے کی ضرورت ہے اس کے لئے جج کو فراخ دلانہ رویہ دکھانا ہوگا۔ سی بی آئی کے مطابق موجودہ معاملے میں قصوروار گلاب تلسیانی دراصل1986ء میں پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے اس معاملے میں شکایت کنندہ سے فیکٹری چالان نپٹانے کے عوض میں دو ہزار روپے کی رشوت لی تھی۔ اس بارے میں کی گئی شکایت کے بعد سی بی آئی نے تلسیانی کے گھر سے رشوت کی رقم برآمد کی تھی۔ تلسیانی نے شکایتی سے اپنے چیمبر میں رشوت مانگی تھی اس پر سی بی آئی نے شکایت کنندہ کی جیب میں ایک ٹیپ ریکارڈر رکھ دیا تھا اور ساتھ ہی نوٹوں پر کیمیکل لگا دئے گئے تھے۔ 7 جون 1986ء کو شکایتی ملزم جج کے گھر پہنچا اور وہاں رقم جج کے حوالے کردی۔اسی دوران لین دین کی بات ریکارڈ ہوگئی۔تلسیانی اب ریٹارڈ ہو چکے ہیں اور وہ اس وقت 74 برس کے ہیں۔ ان کی اہلیہ بیمار ہیں تمام حالات کو دیکھتے ہوئے عدالت نے ملزم کو تین سال کی سزا سنائی اور 50 ہزار روپے جرمانہ کیا ہے۔
Anil Narendra, Corruption, Daily Pratap, Judiciary, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟