پاکستان سپریم کورٹ کا متنازعہ فیصلہ


Published On 29 April 2012
انل نریندر
حالانکہ پاکستان سپریم کورٹ نے عدلیہ اور چنی اور حکومت میں ٹکراؤ ٹالنے کی صورت میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو جمعرات کو عدالت میں توہین عدالت کا قصوروار مانا لیکن عدالت نے انہیں عدالت برخاست ہونے تک ہی یعنی سماعت کے اختتام تک انہیں کیبن میں موجود رہنے کی علامتی سزا سنائی لیکن اس سے ہمیں نہیں لگتا کہ یہ تنازعہ ختم ہوگا۔ یہ علامتی سزا صرف 30 سیکنڈ کی تھی ۔ان30 سیکنڈ نے کئی سوال کھڑے کردئے ہیں۔ قانون کا قد کبھی عوام سے بڑا نہیں ہوسکتا۔ دراصل قانون بنایا ہی عوام کی سہولیت کے لئے گیا ہے۔ ہمارا خیال ہے پاکستان سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کو سزا دیکر کوئی اچھی مثال پیش نہیں کی ہے۔ عدالت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وزیر اعظم بھی چنی ہوئی سرکار کے نمائندہ اور پاکستان میں جمہوریت کی علامت ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی ہمت کی داد دینی ہوگی۔ آج بھی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ آج بھی وہی اشو بنا ہوا ہے کہ وزیر اعظم اس بات کے لئے تیار نہیں ہیں کے وہ صدر زرداری کے کھاتوں کی جانچ کے لئے سوئٹزرلینڈ کے حکام کو خط لکھیں۔ اگر وزیر اعظم اس مسئلے پر سپریم کورٹ سے سمجھوتہ کرتے تو ممکن ہے ان کی سرکار بلاتاخیر گر جائے۔ وزیر اعظم اگر نہیں مانتے تو سپریم کورٹ کہیں زیادہ سخت قدم اٹھا سکتی ہے۔عدالت نے یہ کہا تھا کہ زرداری کو کرپشن کے خلاف معاملوں میں جو معافی سابق صدر پرویز مشرف نے دی تھی وہ غیر قانونی طور پر تسلیم نہیں ہے۔ اس لئے وزیر اعظم گیلانی کو سوئٹزرلینڈ سرکار کو چٹھی لکھنی چاہئے۔ سرکار سپریم کورٹ کا یہ آدیش نہیں مان سکتی۔2007 میں فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد افتخار چودھری کو برخاست کردیا تھا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ واپس بحال ہوکر آگئے اور عدالت کے تمام پرانے ملزم بحال کردئے گئے۔ ایسے ہی لوگ رکھے گئے جو یہ فیصلہ سنا سکیں کہ جنرل پرویز مشرف وہاں صدارتی چناؤ لڑ سکیں۔ ایک فوجی صدر کے ہاتھوں اس طرح سے بے عزت ہونے کے بعد سے پاکستان کی عدلیہ اس موقع کی تلاش کررہی تھی ، جب وہ پھر سے اپنی طاقت دکھا سکے۔ پاکستان سرکار کی حکمت عملی اب بھی یہی ہے کہ سپریم کورٹ کوئی سخت قدم اٹھائے تو وہ جمہوریت کے حق میں شہادت کے اشو پر جنتا کی ہمدردی پائے۔ سپریم کورٹ بھی سرکار کی اس حکمت عملی سے واقف ہے اس لئے اس کی کوشش ہے کہ اگلے عام چناؤ تک اس طرح کا بھروسہ اتنا کم ہوجائے کہ وہ چناؤ نہ جیت سکیں۔ اس لڑائی میں عدلیہ کو پاکستانی فوج کی پوری حمایت حاصل ہے۔ فی الحال راحت کی بات یہ ہے کہ فوج خود اقتدار سیدھے نہیں ہتھیانا چاہتی۔ پاکستانی فوج کا سب سے قریبی امریکہ بھی یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں جمہوریت ختم ہو۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس معاملے کو اتنا بڑھایا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے پاک پارلیمنٹ بھی شاید متفق ہو۔ زرداری کی یہ سرکار پانچ سال پورا کرنے جارہی ہے۔ یہ اپنی آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ پارلیمنٹ چناؤ عنقریب ہونے والے ہیں۔ بہتر ہوتا سپریم کورٹ اس معاملے کو عوام کی عدالت پر چھوڑدیتی؟ بہتر ہوتا اس معاملے میں گیلانی کے تین بار کورٹ میں موجود ہونے کو ہی اس بات کا ثبوت مان لیتی کہ منتخبہ حکومت عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور اس نے اپنی بھول کا اعتراف کرلیا ہے۔ سزا دے کر کورٹ نے اپنے غرور کا ایک طرح سے ثبوت دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ ان کے اس قدم سے پاکستان میں غیر جمہوری طاقتوں کو پھر سے سرگرم ہونے کا موقعہ ملے گا اور داؤ پر صرف زرداری سرکار ہی نہیں خود عدلیہ اور پاکستانی عوام کا مستقبل بھی ہوگا۔
Anil Narendra, Asif Ali Zardari, Daily Pratap, Pakistan, Vir Arjun, Yousuf Raza Gilani

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟