آر ڈبلیو اے نے بجلی کمپنیوں کا کچاچٹھا کھولا



Published On 3 May 2012
انل نریندر
سال2012-13 کی نئی بجلی شرحیں طے کرنے کے لئے دہلی الیکٹریسٹی ریگولیٹری کمیشن (ڈی ای آر ایس ) کے سامنے گذشتہ جمعرات کوعوامی عدالت لگائی گئی۔ پہلے دن ڈی ای آر ایس اور بجلی کمپنیوں کو جنتا کے موڈ کا پتہ چل گیا۔ عوامی سماعت کے دوران بجلی کمپنیوں نے پہلی بار جنتا کی شکایتیں سنیں اور انہیں پتہ چلا کہ جنتا ان کے رویئے سے کتنی پریشان ہے۔ جہاں لوگوں نے کیبن میں موجود افسران کے سامنے اپنے اعتراضات درج کرائے اور بجلی کمپنیوں کی عرضی میں کئی خامیاں گنائیں وہیں باہر لوگوں نے ہاتھ میں کالے فیتے باندھ کر مظاہرہ کیا۔ کمیشن کے چیئرمین پی ڈی سدھاکر کی سربراہی میں یہ عدالت لگائی گئی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جب تک بجلی کمپنیوں کے کھاتے کی جانچ سی اے جی سے نہیں کرائی جاتی تب تک کمیشن کو نئی شرحوں کے تعین کی کارروائی شروع نہیں کرنی چاہئے۔ ان لوگوں نے کہا کمپنیوں کے لئے کارکردگی معیار بھی لاگو نہیں کئے گئے اور نہ ہی بجلی کے تیز بھاگتے میٹروں کا تنازعہ دور ہوا ہے۔ پہلے کمیشن کو لوگوں کو بھروسے میں لینا چاہئے اس کے بعد ہی بجلی کی نئی شرحوں کے تعین کا کام شروع کرنا چاہئے۔ آر ڈبلیو اے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بجلی کمپنیاں مجموعی تکنیکی و کمرشل نقصان ایک ساتھ دکھاتی ہیں جبکہ قومی ٹیرف پالیسی کے مطابق انہیں الگ الگ دکھانا چاہئے کیونکہ تکنیکی نقصان تقریباً برابر ہی رہتا ہے اور کمرشل نقصان جس میں بجلی چوری (محصول کی عدم وصولی ) بجلی شامل ہوتی ہے اسے کم کیا جاسکتا ہے۔ جنتا کے نمائندہ کمپنی کے حکام کی صفائی دلیلیں سننے کوتیار نہیں تھے۔ ایک آر ڈبلیو اے نمائندے نے کہا کہ شمسی پاور کے نام پربجلی کمپنیا ں کنزیومر کو مہنگی بجلی دیں گی۔ اس ریگولیشن میں سرٹیفکیٹ سسٹم کی بات کہی گئی ہے جس میں بجلی کمپنیاں فرضی سرٹیفکیٹ دکھا کر سستی کمرشل پاور کو مہنگی شمسی پاور بتا کر عوام کو لوٹیں گی۔ انہوں نے کہا جب تک شمسی پاور کے دام کم نہیں ہوتے تب تک ہمیں شمسی پاور کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈی آر سی کے چیئرمین نے کہا اسی معاملے پر مسودہ بنانے کے لئے ایک رائے مانگی گئی ہے۔ کمپنیاں اپنے کھاتوں میں جھوٹی اطلاعات دے رہی ہیں۔ سی اے جی اور اس طرح کی ایجنسی سے ان بجلی کمپنیوں کی جانچ انتہائی ضروری ہے۔ بجلی عوام کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ عام شکایت یہ ہے تیز میٹروں کے چلتے ان کی شکایت پر کوئی غور نہیں ہوتا۔ ویسے یہ بھی صحیح ہے کہ بجلی کی چوری بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ دہلی میں کافی تعداد میں لوگوں نے براہ راست بجلی کے تاروں سے کنکشن لئے ہوئے ہیں۔ بجلی کمپنیاں اس خسارے کو بل دینے والے صارفین پر بوجھ ڈال کر پورا کرتی ہیں۔ شنگلو کمیٹی نے بھی بجلی کمپنیوں کے خلاف کئی الزامات لگائے ہیں اور خامیاں گنائی ہیں۔ لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پھر بجلی کمپنیوں کو آر ٹی آئی کے دائرے سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ بجلی سرپرست ہونے پر اسے بازار کے دام پر بیچنے کے لئے بجلی کمپنیوں نے کیا قدم اٹھائے ہیں؟ مہنگے دام پر بجلی خریدنے اور فاضل بجلی کا بوجھ صارفین پر ہی پڑتا ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, DERC, Electricity, RWA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟