راجدھانی کی سڑکوں پر عام آدمی تو کیا جج بھی محفوظ نہیں

دہلی کی سڑکیں اتنی غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں کہ اب تو سڑک پر چلنے سے ڈر لگنے لگا ہے۔ عام آدمی تو اب دور کی بات ہے راجدھانی میں جج صاحبان تک محفوظ نہیں ہیں۔ حال ہی میں لاجپت نگر علاقے میں ایک سڑک پر ہوئے غنڈہ گردی کے واقعہ میں ایک جج کے ساتھ مار پیٹ ہوئی تھی۔ اب جمعرات کی شام ایک بار پھر ایک کار سوار نے تین ججوں پر حملہ کردیا۔ یہ واردات دکشن پوری کے علاقے میں ہوئی جہاں اسٹیم کار میں سوار تین ججوں کی گاڑی معمولی طور سے ایک بائیک سوار سے ٹچ ہوگئی تھی۔ اس بات کو لیکر ہوئی کہا سنی کو لیکر جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ بائیک سوار لڑکوں نے جج کی گاڑی پر اینٹوں سے حملہ کردیا۔ میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ اچاریہ گرگ اور دو اڈیشنل ڈسٹرکٹ جج منوج کمار ناگپال اور اندر جیت سنگھ شام کو ساکیت عدالت سے ایک ہی کار میں فرید آباد اپنے گھر جارہے تھے۔ دکشن پوری کے جے بلاک میں ان کی گاڑی ایک پلیٹینا بائیک سے ٹکرا گئی۔ اس سے بائیک سوار دو لڑکے بھڑک گئے اور انہوں نے کار کے ڈرائیور چمن لال کو باہر کھینچ لیا۔ لڑکوں نے پہلے تو کار میں بیٹھے ججوں کے ساتھ بد تمیزی کی اور پھر ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ تھوڑی دیر بعد بائیک دو اور لڑکے وہاں پہنچ گئے انہوں نے بھی مار پیٹ شروع کردی۔ حملہ آوروں نے آس پاس پڑے اینٹ اور پتھروں سے کار میں توڑ پھوڑ کی۔ چشم دید گواہوں کے مطابق پیچھے کی سیٹ پربیٹھے دونوں جج منوج کمار ناگپال اور اندر جیت سنگھ پاس میں واقع ایک مکان کی طرف دوڑے۔ دونوں ججوں کو معمولی چوٹ آئیں جبکہ میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ اجے گرگ اور ڈرائیور چمن لال کے سر میں چوٹیں آئی ہیں۔ حملہ آور چاروں لڑکے اپنی بائیک موقعہ ورادات پر چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ یہ دونوں بائیک دہلی کے نمبر کی ہیں۔ پولیس نے واردات میں شامل انل نامی لڑکے کو امبیڈکر نگر سے پکڑا اور اس کی نشاندہی پر دوسرے لڑکوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ اس میں سے انل نے خود کو پتھر سے زخمی کرلیا۔ وہ ابھی ہسپتال میں ہی داخل ہے۔ دہلی میں روڈریج کے واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ سال2011 ء میں کل قتل میں 17 فیصدی روڈ ریج کے معاملے میں ہوئے۔ 2010ء میں یہ تعداد15 فیصدی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لئے چوکس ہوجانا چاہئے۔ صرف پولیس کو کوسنے سے کوئی حل نہیں نکلے گا۔ بیشک جرائم کنٹرول کی ذمہ داری پولیس کی ہے لیکن روڈ ریج میں پولیس کیا کرسکتی ہے؟ دہلی کی سڑکوں پر چلنے والے لوگوں کا صبر اتنا کم ہوتا جارہا ہے کہ وہ معمولی سی واردات میں الجھ جاتے ہیں۔ سائڈ نہ ملنے پر تو وہ اپنا آپا کھودیتے ہیں۔ انہیں اب اس کی پرواہ بھی نہیں کہ جس پر وہ حملہ کررہے ہیں وہ شخص کون ہے اور کتنی عمر کا ہے؟ حال ہی میں ایمس کے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی میں تقریباً 20 فیصدی سے زیادہ لڑکے بلڈ پریشر سے متاثر ہیں۔ جدید زندگی کی دوڑ دھوپ میں اور بلیڈ حملے نے نوجوانوں کو دماغی اور جسمانی طور پر متاثر کیا ہے۔ اب ظاہر ہے یہ ہی وجہ ہے کہ گھر کے اندر باہر جرائم بڑھ رہے ہیں۔ راجدھانی میں موسم کے گرم ہونے کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر لڑکوں کا بھی پارہ بڑھ رہا ہے۔ سڑکیں تنگ ہوتی جارہی ہیں ،گاڑیاں بڑھتی جارہی ہیں، ججوں پر حملہ کرنے والے لڑکوں پر سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ اس کو تو سڑک پر چلنے ہی نہیں دینا چاہئے۔ ان کے لائسنس ہی منسوخ کردئے جانے چاہئیں۔ تبھی روڈ ریج کے یہ بڑھتے واقعات رک سکیں گے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟