پیٹرول کی قیمتیں:سمجھیں اس سرکار کے بہانے،چھلاوے اور چالاکی... (1)


میں نے کئی بار اسی کالم میں لکھا ہے کہ دیش اس سرکار اور مٹھی بھر تیل کمپنیوں کی دھاندلی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سرکار ہر مرتبہ پیٹرول کے دام بڑھا کر اپنا پلہ یہ کہہ کر نہیں جھاڑ سکتی کہ ہم کیا کریں یہ فیصلہ تو تیل کمپنیوں کا ہے۔ دیش چاہتا ہے کہ ان تیل کمپنیوں کی جھوٹی دلیلوں اور سرکار کی بدنیتی کا پردہ فاش ہو لیکن اس سے پہلے کہ میں تیل کمپنیوں کی بے بنیاد دلیلوں کی بات کروں میں چاہتا ہوں ہم اس حکومت کے سوچنے کے ڈھنگ کو سمجھیں۔ ماہر اقتصادیات اور وکیلوں سے بھری پڑی کانگریس قیادت والی یوپی اے سرکار پیٹرول کو امیروں کا ایندھن مان بیٹھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیش کے60 فیصدی سے زائد اسکوٹر، آٹو رکشہ کی بکری چھوٹے شہروں اور دیہاتی علاقوں میں ہوتی ہے۔ میٹرو شہروں میں مختلف درمیانے طبقے ہی پیٹرول کا سب سے بڑا گراہک ہیں۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا اثر ہر اس طبقے پر پڑتا ہے۔ ان کی آمدنی تو اتنی بڑھی نہیں اور خرچ بے شمار بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ اپنا گھر بار کیسے چلائیں، کیا کام پر جانا چھوڑدیں؟ کیا کریں۔ جہاں تک ان تیل کمپنیوں کی بات ہے تو بھارت کی یہ بدقسمتی ہے کہ 90 فیصدی تیل تجارت پر سرکاری کمپنیوں کا کنٹرول ہے اور سرکار کی مانیں تو یہ کمپنیاں عوام کو سستا تیل بیچنے کے سبب بھاری خسارے میں ہیں۔ دوسری طرف نامور میگزین فارچون کے مطابق دنیاکی بڑی500 کمپنیوں میں بھارت کی تینوں سرکاری کمپنیاں انڈین آئل(98)، بھارت پیٹرولیم (271) اور ہندوستان پیٹرولیم (355) شامل ہیں۔ تیل اور گیس کی تلاش سے وابستہ دوسری سرکاری کمپنی او این جی سی بھی فارچون کی 500 کی فہرست میں 360 ویں درجے پر ہے۔ پھر ہر سال یہ وزیر اعظم کو موٹے موٹے حقیقی منافع کے چیک بھی دیتی ہیں۔ آخر یہ کیا اتفاق ہے کہ سرکار خسارے کا دعوی کررہی ہے لیکن تیل کمپنیوں کی بیلنس شیٹ ٹھیک ٹھاک ہے؟ 2011ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق انڈین آئل کارپوریشن کی 7445 ایچ پی سی ایل کو 1539 اور بی پی سی ایل کو 1547 کروڑ کا فائدہ ہوا، وہ بھی ٹیکس چکانے کے بعد۔ اس حقیقت کے بعد بھی سرکار مسلسل ان کمپنیوں کے خسارے کی جھوٹی دلیلوں سے باز نہیں آرہی ہے۔ ہمیں اس سرکار کے بہانوں ،چھلاوے اور چالاکی کو سمجھنا ہوگا۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قیمت میں گراوٹ کی دلیل دی جارہی ہے۔ تیل کمپنیوں کا کہنا ہے کہ 80 فیصد تیل بیرون ملک سے منگانا پڑتا ہے اور اس کی ادائیگی ڈالر میں کرنا پڑتی ہے۔ کیونکہ ڈالر اس وقت56 روپے کا ہوچکا ہے اس لئے زیادہ قیمت دینی پڑ رہی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ15 مئی 2011ء کو جب پیٹرول پانچ روپے مہنگا ہوا تب بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمت 114 ڈالر فی بیرل تھی جبکہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قیمت 46 روپے ۔ اس حساب سے ہمیں کچے تیل کے لئے 5244 روپے چکانے پڑتے تھے۔ آج کچا تیل 91.47 روپے بیرل ہے اور ایک ڈالر 56 روپے کا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے بھاؤ سے ایک بیرل تیل 5056 روپے کا ہے یعنی کچا تیل148 روپے بیرل تب سے سستا ہے۔اب بات کرتے ہیں کچے تیل کے نام پر چھلاوے کی۔ کیونکہ تیل کمپنیوں نے 26 جون2010ء (جب پیٹرول کنٹرول سے آزاد ہوا تھا) تو کہا تھا کہ کچے تیل کی بین الاقوامی بازار میں قیمتوں کو ذہن میں رکھ کر دیش میں پیٹرول کے دام طے ہوں گے۔ سرکار اور کمپنیوں نے مل کر پچھلے دو سال میں14 مرتبہ کچے تیل کے نام پر پیٹرول کے دام بڑھائے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ پہلے جب عالمی منڈی میں کچے تیل کا دام 114 ڈالر فی بیرل تھا تب بھی تیل کمپنیاں خسارہ بتا رہی تھیں آج کچے تیل کا بھاؤ91.47 ڈالر ہے تو ابھی بھی گھاٹا ہورہا ہے۔ روپے کی قیمتیں گرنا بھی ایک طرح سے چھلاوا ہے کیونکہ15 مئی 2011ء سے اب تک ڈالر10 روپے مہنگا ہوا ہے اور کچا تیل 22 ڈالر سستا ہوچکا ہے لیکن اس دوران پیٹرول کی قیمتوں میں صرف تین بار معمولی کمی آئی ہے۔ خسارے کے نام پر چالاکی۔ کیونکہ سرکاری تیل کمپنیوں کا کہنا ہے کہ پیٹرول کے علاوہ سرکار کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے ڈیزل ، رسوئی گیس اور مٹی کے تیل کی قیمتیں نہیں بڑھنے سے بھی ان کا خسارہ بڑھا ہے۔ ڈیزل کی قیمت آخری بار 26 جون2011ء کو بڑھی تھی۔ تینوں کمپنیوں کا دعوی ہے انہیں اس سال 1.86 لاکھ کروڑ روپے کا خسارہ ہوگا۔ سچ کیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ تیل کمپنیاں بھاری منافع کما رہی ہیں۔2011ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق او این جی سی کو 7445 کروڑ روپے ، ایچ پی سی ایل کو 1539 کروڑ روپے، بی پی سی ایل کو1547 کروڑ روپے کا منافع ہوا ہے۔ ویسے بھی ٹیکس دینے کے بعدڈیزل گیس اور مٹی کے تیل پر خسارے کی بات بھی جھوٹی ہے کیونکہ سرکار اس پر سبسڈی دے رہی ہے۔(جاری)
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟