منموہن حکومت کی تین سالہ کارکردگی: مایوسی اور لاچاری


یوپی اے نے اپنی تیسری سالگرہ پر دیش کو زبردست تحفہ دیا ہے۔اس نے راتوں رات 7 روپے50 پیسے فی لیٹر پیٹرول کے دام بڑھا دئے ہیں۔روپے کی قیمت اتنی گر گئی کے پرانے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قیمت 53.39 پر نیچے آگئی ہے۔ افراط زر میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ سرکار کہتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے وہ بین الاقوامی حالات پر مجبور ہے اور لگتا ہے کہ اس سرکار کو اب یقین ہوچکا ہے کہ اس کی اب آخری پاری ہے اس لئے جو کرنا ہے کرڈالو، اقتدار میں پھر تو آنا نہیں،جتنا ہو سکے کرلو۔ دیش کی جنتا مجبور ہے ، وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ انہیں اقتدار میں لانا اتنا بھاری پڑے گا اس کا شاید عوام نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ مرکزی اقتدار کی دوسری پاری کے تین سال پورے کرنے والی کانگریس قیادت والی یوپی اے سرکار کی ساکھ اتنی گر چکی ہے کہ اگر مستقبل قریب میں چناؤ کرادئے جائیں تو وہ کبھی جیت کر واپس نہیں آسکتی۔ نیوز چینل آئی بی این 7 کے ذریعے کرائے گئے سروے کی مانیں تو جنتا یوپی اے سرکار سے بری طرح ناراض ہے۔ سروے میں جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا یوپی اے کو ایک اور موقعہ ملنا چاہئے تو 49 فیصدی لوگوں نے نہیں میں جواب دیا۔ یہ ہی نہیں 55 فیصدی لوگوں نے کہا کہ منموہن سنگھ کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا جانا چاہئے۔33 فیصدی کا کہنا تھا کہ منموہن سنگھ کی جگہ راہل گاندھی کو پردھان منتری بناناچاہئے جبکہ20 فیصدی نے پرنب دادا کو اور7 فیصدی نے سونیا گاندھی کو وزیر اعظم بنانے کی رائے دی۔ سرکار کی گرتی مقبولیت کے پیچھے سب سے بڑی وجہ مہنگائی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر دوسری پاری میں منموہن سنگھ کی سب سے بڑی ناکامی کیا ہے 31 فیصدی لوگوں نے بے قابو قیمتوں کو خاص وجہ بتایا ہے۔ 17 فیصدی لوگوں نے کرپشن کو سب سے بڑی ناکامی بتایا ہے جبکہ13 فیصدی لوگوں نے ترقی کی رفتار پر بریک کو بڑی وجہ مانا ہے۔ 10 فیصدی لوگوں نے کہا کہ منموہن سنگھ سنکٹ کے وقت فیصلے لینے میں ناکام رہے۔ کل ملا کر 59 فیصدی لوگوں نے کہا کہ وہ اس سرکار سے مطمئن نہیں۔ اگلے چناؤ میں اگر این ڈی اے جیت جائے تو کسے وزیر اعظم بننا چاہئے اس سوال پر سب سے زیادہ39 فیصدی لوگوں کی پسند نریندر مودی تھے۔ 17 فیصدی لوگوں نے ایل کے اڈوانی کو پسند کیا ۔ یوپی اے II- سرکار کے تین سال پورے ہونے پر وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی ایک رپورٹ کارڈ جاری کی اس میں وزیر اعظم نے مہنگائی کا ذکر تک کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ تین سال میں اس سرکارکے پاس جنتا کو بتانے کے لئے ایک بھی کارنامہ نہیں تھا۔ سرکار نے دیش کو مہنگائی، کرپشن اور مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اس سرکار نے بد انتظامی کے سارے ریکارڈ توڑ دئے ہیں۔حکومت کی غلط اقتصادی پالیسیوں کے سبب آج دیش سے غیر ملکی سرمایہ کاری واپس ہونے لگی ہے۔ مالی خسارے کو ختم کرنے کے لئے نہ تو کوئی اسکیم ہے اور نہ ہی کوئی گارنٹی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ روپے کی قیمت میں ریکارڈ گراوٹ آئی ہے اور پوری معیشت تباہ ہونے کے دہانے پر کھڑی ہے۔ گھوٹالو ں سے دیش کی نیند حرام ہے۔ لوکپال اور لوک آیکت جیسے قدم جس سے کرپشن پر قابو پایا جاسکے کو بہانے بنا کر ٹالا جارہا ہے۔ منریگا جیسی انقلابی اسکیموں میں گھوٹالے نہیں رک سکے اس سرکار کے بارے میں عام یہ رائے بن گئی ہے کہ کرپشن روکنے میں دلچسپ نہیں رکھتی۔ ریکارڈ پیدا وار کے باوجود اناج کے ذخیرے کو محفوظ رکھنے کیلئے گودام نہیں، نتیجتاً اناج سڑ رہا ہے اور اس کی بربادی ہورہی ہے۔ کسان خودکشی پر مجبور ہیں۔ نوجوانوں کو نوکریاں نہیں مل رہی ہیں۔ اس سرکار کے پاس ہرمرض کی بس ایک ہی دوا ہے اتحادی دھرم کی مجبوری بتانا۔ نکسلواد پنپ رہا ہے کیونکہ اس سرکار کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ تو کوئی ٹھوس پالیسی ہے اور نہ ہی قوت ارادی ہے۔ آج پورے دیش میں مایوسی کا ماحول ہے ،جنتا کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ جنتا کے پاس اگر یہ ہتھیار ہوتا وہ اس سرکار کو چلتا کردیتی تو شایددس سیکنڈ بھی نہ لگتے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟