قصاب کی مہمان نوازی پر ہورہے 20 کروڑ کا خرچ کون برداشت کرے؟

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ رحم کی اپیلوں کے معاملے میں اس کے سامنے دو معاملے التوا میں ہیں۔ ان معاملوں میں وہ کچھ ایسی ہدایت دے سکتی ہے جو صدر کے پاس التوا میں پڑی رحم کی اپیلوں کو لائن میں لگا سکتی ہے۔اس لئے بہتر ہوگا کہ وہ رحم کی اپیلوں کے نپٹارے کے لئے کوئی وقت یا میعاد مقرر کرے۔ جسٹس جی ایس سنگھوی، ایس جے مکھ اپادھیائے کی ڈویژن بنچ نے کہا ہے کہ مرکز وقت اور میعاد مقرر کرنے پر غور کرے۔ حالانکہ معافی دینے کے صدر کے مخصوص اختیارات پر وہ کوئی ہدایت نہیں دینا چاہتے۔ عدالت نے کہا ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ سرکار جلد بازی میں فیصلہ کرے کیونکہ اس سے اس کے سامنے التوا معاملوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ عدالت نے یہ رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت نے بھلر کے معاملے میں سرگرمی تبھی دکھائی جب اس نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ اس کی عرضی کے ایک ماہ بعد ہی حکومت نے اسے خارج کردیا۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس کے مقدمے کے نفع نقصان کی بنیاد پر فیصلہ ہوا ہے۔ صدر کے سامنے رحم کی عرضیوں کے برسوں تک لٹکے رہنے کے خلاف موت کی سزا یافتہ دو قصورواروں دیویندر سنگھ بھلر اور مہندر ناتھ داس نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انہیں آئین کی دفعہ 21 کے تحت ملے اختیارات کی خلاف ورزی ہے اس لئے ان کی سزاؤں کو اب عمر قید میں بدل دیا جائے۔ دونوں عرضیوں پر صدر کے یہاں تقریباً 7 برسوں سے زیادہ کی تاخیر ہوچکی ہے۔ادھر سکھا راحت کے معاملے پر دہلی ہائی کورٹ سے خالی ہاتھ لوٹے مہاراشٹر کے وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان نے کہا ہے کہ آرتھر روڈ جیل میں بند اجمل قصاب کی سکیورٹی کا خرچ مہاراشٹر سرکار کے سر ڈالنا سراسر غلط ہے۔ چوہان نے وزیر داخلہ پی چدمبرم کو ایک خط لکھ کر مانگ کی ہے کہ قصاب کی سلامتی پر خرچ ہوئے قریب20 کروڑ روپے کو مرکزی سرکار برداشت کرے۔ چوہان نے یہ خط این سی پی نیتا اور ریاست کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل کے اس بیان کے بعد لکھا ہے جس میں انہوں نے قصاب کی اتنی لمبی دیکھ بھال کو غلط بتایا تھا۔ اجمل قصاب کی سلامتی میں لگی انڈو تبت پولیس نے مہاراشٹر سرکار کے پاس 28 مارچ 2009 سے لیکر 30 ستمبر 2011 تک کے قریب20 کروڑ روپے کا بل بھیج دیا ہے۔ یہ بل آئی ٹی بی پی کے ان ملازمین کی تنخواہ اور بھتوں پر خرچ ہوا ہے جو قصاب کی سلامتی میں لگے ہوئے ہیں۔ پہلے ہی سے اقتصادی بحران کا شکار مہاراشٹر سرکار پر 20 کروڑ روپے کا خرچ کسی بوجھ سے کم نہیں ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے وزیر اعلی چوہان نے چدمبرم کو خط بھیجا ہے۔ مرکزی سرکا ر اور ریاستی سرکار کے درمیان رسہ کشی کا یہ معاملہ آنے والے دنوں میں طول پکڑ سکتا ہے۔ قصاب کو مبینہ طور سے سرکاری مہمان کے طور پررکھے جانے کو لیکر شیو سینا کئی بار مرکز اور ریاستی سرکار پر حملہ کرچکی ہے۔ این سی پی کو بھی اب لگنے لگا ہے کہ مراٹھی مانش کے اشو سے دور ہوجانے کی وجہ سے حال کے بلدیاتی انتخابات میں ممبئی کے ووٹروں نے اسے پوری طرح سے نامنظور کردیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کب تک اجمل قصاب کی دیش یوں ہی خاطر داری کرتا رہے گا؟ آخر کوئی وقت ،میعاد تو طے کرنی ہی ہوگی؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟