گھٹتے کسان اور اس سے زیادہ گھٹتی کسانی


ہندوستانی معیشت کی بنیاد زراعت ہے۔ بھارت کے جی ڈی پی میں زراعت کا اشتراک 17 فیصد سے زیادہ ہے۔ کسان دیش کی آبادی کو نہ صرف کھانا فراہم کرتے ہیں بلکہ زراعت میں ایک بڑی آبادی کو روزی روٹی بھی مہیا کراتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کافی حد تک دیش کی صحت کسانوں کی صحت پر منحصرکرتی ہے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ آج بھارت کا کسان بہت دکھی ہے اور مشکل دور سے گذر رہا ہے۔ ایک بڑا سوال ہے جو ہم سب کو بے چین کررہا ہے کہ کھیتی کے معاملے میں کسانوں کا رجحان گھٹ رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 98.2 فیصد کسانوں کی نئی نسل میں کسانی کے تئیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے درمیانے و چھوٹے کسانوں نے کھیت بیچ کر اپنے بچوں کو زندگی میں کام آنے والی تعلیم دینا بہتر سمجھا ہے۔ تاملناڈو کے ایک کسان کے بیٹے نے انجینئرنگ کی پانچ لاکھ فیس اپنے کھیتوں کو بیچ کر اور کچھ ادھاری میں رقم جٹائی ہے۔ دراصل چھوٹے اور درمیانے کسانوں کے لئے اپنے یہاں کھیتی فائدہ کا سودا نہیں رہا۔ آج چھوٹا کسان نریگا کی مزدوری کرکے زیادہ خوش ہے۔ کسان پہلے کھیت جوتا کرتے تھے پھر اس کے بیج کیلئے جتائی بوائی سے لیکر روز مرہ کی بھاگ دوڑ اور آخر کار بچولیوں کی بالادستی کے چلتے لاگت بھی ہاتھ آجائے تو یہ خوش قسمتی ہے اس لئے نئی پیڑھی کا سیدہ فنڈا ہے کے زمین بیچوں کوئی کاروبار کمرشل کورس کرلو اور نوکری ڈھونڈو۔ اب بڑے کسانوں کے پڑھے لکھے بچوں کو بھی کھیتوں میں کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کسان سے شادی کرنے میں بھی اب لوگ کترانے لگے ہیں۔ کئی موقعوں پر شادی کے لئے کسانوں کو نوکری کا دکھاوا تک کرنا پڑتا ہے۔ ترقی کی اندھی دوڑ میں کسانوں کو سب سے زیادہ نقصان جھیلنا پڑا ہے۔ ہماری ترقی کا نیا ماڈل مغربی ممالک جیسا ہے جہاں ایسی صنعتوں کو فروغ ملا ہے جس کا زراعت اور کسانوں سے سیدھا لین دین نہیں ہوتا۔ وہیں یہ ٹھیک ہوسکتا ہے کیونکہ سرد گرم موسم کے سبب سال بھر کھیتی ممکن نہیں لیکن ایشیائی جیسے جغرافیائی حصے کے موسم میں سال بھر کھیتی ممکن ہے۔ یہ محض زراعت پر مبنی صنعت ہی صحیح ماڈل ثابت ہوسکتی ہیں۔ ویسے بھی زراعت کفیل ممالک کی ترقی کے سبھی وسائل کھیتی سے جڑے ہونے چاہئیں۔ بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ آزادی کے بعد ہماری سرکاروں نے کھیتی کو پیچھے کر باقی صنعتوں پر زیادہ توجہ دی ہے۔ نتیجہ اپنے یہاں ریئل اسٹیٹ کاروبار ،آئی ٹی جیسی صنعتیں، جی ڈی پی کا بڑا حصہ بن گئے ہیں لیکن 64 برسوں میں اس کا فائدہ مٹھی بھر لوگوں کو ہی ملا ہے اور کسانوں کا بڑا طبقہ جو کھیتی سے ترقی کے خواب دیکھ رہا ہے محرومی کے زمرے میں پہنچ چکا ہے۔ جس حساب سے زراعت سے وابستہ زمین کا مختلف کاموں جیسے قومی شاہراہ ، ہوائی اڈے، اسپیشل اکنامک زون وغیرہ کی تحویل ہونا اس سے یہ تشویش پیدا ہوگئی ہے کھیتی کے لئے زمین بچے گی بھی یا نہیں۔ گھٹتی کھیتی صرف بھارت کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے پریشانی کا سبب ہے۔ آنے والے دنوں میں غذائیت سب سے بڑا عالمی اشو ہوگا۔ ایسے میں مرکزی سرکار کو پہل کر ریاست میں ایک یقینی فیصد زمین کو خاص طور پر (اپجاؤ) کھیتی کے لئے بچا کر رکھنی پڑی گے اور ریاستوں کو اپنی غذائی ضرورت کے مطابق پیداکرنے کیلئے بھی بندھنا پڑے گا۔ ریاستیں اپنے آپ کو صنعت ہی نہیں کھیتی پر مبنی ترقی پر بھی مرکوز کریں۔ زرعی اجناس کی کسانوں کو صحیح قیمت ملے اور پیدا وار خرچ میں کٹوتی ہو اس پر سب سے زیادہ توجہ دینا ضروری ہے۔ اسی سے دیہات سے بڑھتی ہجرت کو روک لگ سکتی ہے۔ کسانوں کی غربت دور ہوسکتی ہے اور سماج میں ان کے سنمان کو صحیح جگہ مل سکے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟