منموہن سنگھ کی آخری سیاسی پاری؟




Published On 3rd November 2011
انل نریندر
وزیراعظم منموہن سنگھ پچھلے کافی عرصے سے چوطرفہ حملے جھیل رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اب منموہن سنگھ کو ان حملوں کی پرواہ بھی نہیں ہے۔ وہ ان سے بے چین نہیں ہوتے اور انہوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ جتنے دن اور ممکن ہو وزیر اعظم کی کرسی پر چپکے رہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے یہ ان کی بطور وزیر اعظم آخری پاری ہے۔ اس کے بعد تو انہیں موقعہ ملنا نہیں ہے۔ تبھی تو وہ کسی بھی تنقید کو ان سنا کردیتے ہیں۔ تازہ حملہ دیش کے ایک عزت دار اور غیر جانبدار صنعتکار نے کیا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر کی بڑی کمپنی وپرو کے چیئرمین عظیم پریم جی نے کہا ہے کہ اس وقت حکومت میں فیصلہ لینے کی صلاحیت میں کمی ہے اور صحیح قدم نہیں اٹھائے گئے تو اقتصادی ترقی کی رفتار متاثر ہوسکتی ہے۔ جب پریم جی سے اخبار نویسوں نے پوچھا کہ ان کے حساب سے اس وقت دیش کے لئے سب سے بڑی پریشانی کی بات کیا ہے تو انہوں نے کہا سب سے بڑی تشویش راج کاج چلانے سے وابستہ معاملوں کو لیکر ہے۔ سرکار کے لیڈروں میں فیصلہ لینے کی صلاحیت کا پوری طرح کا احساس ہے۔ غور طلب ہے کہ پریم جی سمیت کئی سرکردہ صنعتکاروں جیسے مہندرا گروپ کے کیشور مہندرا، ایچ ڈی ایف سی کے دیپک پارکھ نے بھی اسی مہینے قومی لیڈروں کو لکھے خط میں سلسلہ وار گھوٹالوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے سرکاری کام کاج چلانے میں پریشانی ہورہی ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بدعنوانی جیسی چنوتیوں سے شہری تحریک یا پوسٹر بازی سے نہیں نمٹا جاسکتا۔ ادھر جنتا پارٹی کے پردھان سبرامنیم سوامی نے کانگریس صدر سونیا گاندھی پر راہل گاندھی کو دیش کی باگ ڈور سونپنے کے لئے وزیر اعظم منموہن سنگھ پر استعفے کا دباؤ بنانے کا الزام لگایا ہے۔
سوامی نے پیر کے روز بلیا میں کہا کانگریس چیف سونیا گاندھی وزیر اعظم منموہن سنگھ پر استعفیٰ دینے کا دباؤ بنا رہی ہیں۔ وہ جلد سے جلد راہل کو وزیر اعظم بنانا چاہتی ہیں لیکن راہل کا اس عہدے پر بیٹھنا ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ راہل کے وزیر اعظم بننے سے دیش اور بربادی کی طرف بڑھے گا۔منموہن سنگھ کو عہدے سے ہٹانے کے لئے آپریشن سونیا اور راہل کے چاپلوس چلا رہے ہیں ۔سوامی نے کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ میں کسی بھی شخص کو کچھ بھی کہہ ڈالنے والے کانگریس جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ کو چنوتی دیتا ہوں کہ وہ میرے خلاف بیان دیں۔ جس دن انہوں نے میرے خلاف منہ کھولا ان پر کئی مقدمے درج ہوجائیں گے۔ کیونکہ میرے پاس ان کے خلاف کئی ثبوت ہیں۔ انہوں نے نصیحت دیتے ہوئے کہا ''دگوجے سنگھ پردھان منتری بننے کا خواب دیکھنا بند کردیں کیونکہ نوکر کبھی مالک نہیں بن سکتا۔'' سوامی نے الزام لگایا کہ کانگریس سکریٹری جنرل راہل گاندھی دگوجے سنگھ کو وزیر اعظم بننے کا خواب دکھا دیا ہے لیکن انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ نہرو گاندھی خاندان اپنے ہی پریوار میں سے کسی کو وزیر اعظم بنائے گا۔
راہل گاندھی کے قریبی ذرائع کے حوالے سے خبر مل رہی ہے کہ سرکار اور کانگریس پارٹی میں جلدی ہی بڑی تبدیلی متوقع ہے۔ وزیر اعظم کے سطح پر بھی 2012ء میں تبدیلی ہوگی اور اس کے نتیجے میں منموہن سنگھ کو گدی چھوڑنی پڑ سکتی ہے۔ راجیو گاندھی کے قریبی دوست اور راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کے ممبرسمن دوبے کے لڑکے امیتابھ دوبے نے تجزیئے کی بنیاد پر اقتصادی روزنامے میں خبر شائع ہوئی ہے کہ امیتابھ دوبے کو راہل گاندھی کے قریبی دوست کے طور پر جانا جاتا ہے اور کچھ وقت پہلے راہل گاندھی کیرل بھی ان کی شادی میں شرکت کرنے گئے تھے۔ امیتابھ دوبے مالیات کے ماہر ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امیتابھ مانتے ہیں کہ بدعنوانی کے الزامات کے سبب منموہن سنگھ سرکار کی اقتدار سے پکڑ کمزور ہوچکی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ منموہن سنگھ اب پائیدار لیڈر شپ نہیں دے پا رہے ہیں۔ اس کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ بھارتیہ سیاست کی شکل کیسی ہونے والی ہے۔ وسط مدتی چناؤ کے امکانات کم ہیں لیکن سیاسی عدم استحکام اور لیڈر شپ کے پنگو ہونے کی وجہ سے سرکار ٹھہر سی گئی ہے۔ منموہن سنگھ کی اپنے ساتھیوں پر لگام کسنے کی صلاحیت کمزور ہوچکی ہے اس کی وجہ سے منموہن سنگھ کی بھی لاچاری ہے تو اس کے پیچھے دوسری وجہ بدنظمی کے سبب سونیا گاندھی کی غیر موجودگی بھی رہی ہے کیونکہ منموہن سنگھ عوامی لیڈر نہیں ہیں اس وجہ سے ان میں سیاسی عزم کی بھی کمی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کانگریس پارٹی کے پاس لیڈر شپ کا بحران حل کرنے کے لئے تین متبادل ہیں۔ پارٹی موجودہ حالات کو ٹھیک ٹھاک رکھ سکتی ہے لیکن بہترین کرنے کی کوشش جاری ہے۔ پارٹی چاہتی ہے کرپشن مخالفت تحریک کمزور پڑنی چاہئے اور مہنگائی کم ہونا چاہئے۔ پارٹی کا شخص کو بٹھانا دوسرا متبادل ہوسکتا ہے۔ اس میں سے ایک شخص وزیر دفاع اے کے انٹونی ہوسکتے ہیں جنہیں پورے طور پر ایماندار مانا جاتا ہے۔ لیکن ڈیفنس سیکٹر میں انٹونی کو سست فیصلہ لینے والا مانا جاتا ہے۔ ایک متبادل لوک سبھا اسپیکر میرا کمار ہوسکتی ہیں لیکن ان کی انتظامی اہلیتوں کی پرکھ ابھی باقی ہے۔ پرنب مکھرجی اور پی چدمبرم مضبوط امیدوار ہوسکتے ہیں لیکن ان کے حالیہ برتاؤ نے ان کے امکانات کو کمزور کردیا ہے۔ راہل تیسرے متبادل ہوسکتے ہیں لیکن وہ دخل دینے کو تیار نہیں ہوں گے کیونکہ وہ پارٹی کی یوتھ ونگ کو مضبوط کرنے اور اترپردیش کے اہم انتخابات میں مصروف ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ ابھی تک پرکھے نہیں گئے ہیں اور انہوں نے ابھی کوئی وزارت بھی نہیں سنبھالی ہے۔ امیتابھ دوبے کے ذریعے بھیجی گئی رپورٹ کافی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ وہ راہل گاندھی کے بہت قریبی اور ان کے محکمے کو سنبھالتے ہیں۔ اس لئے اسے بھارت کی سیاسی حالت کا پوری طرح سے تجزیہ مانا جارہا ہے۔
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Digvijay Singh, Manmohan Singh, Sonia Gandhi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟