آبادی اور بھارت کی چنوتیاں



Published On 2nd November 2011
انل نریندر
 اقوام متحدہ کی ویب سائٹ میں دو دن پہلے بھارت کو بے تحاشہ آبادی بڑھانے کے معاملے میں آگاہ کیا گیا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ آبادی بڑھنے کی رفتار یہ ہی بنی رہی تو اگلی چار دہائیوں میں بدحالی کے جال میں پھنس جائے گا۔فلپین کی راجدھانی منیلا میں سات ارب ویں بچے کی پیدائش ایتوار کو درج کی گئی۔ پہلے اندازہ لگایا گیا تھا سات ارب کی آبادی کی علامت بچہ اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں پیدا ہوگا۔ اس کے لئے غیر سرکاری تنظیموں نے ماں بننے والی خواتین کی بھی نشاندہی کی تھی اور ان کی نگرانی بھی شروع کردی گئی لیکن طے وقت سے کچھ سیکنڈ پہلے لکھنؤ کو یہ وقار حاصل نہیں ہوسکا۔ اقوام متحدہ کے مبصرین نے یہ وقار منیلا کے ایک ہسپتال میں پیدا بچے کا نام درج کیا ہے۔اقوام متحدہ نے اپنی ویب سائٹ میں آبادی کے اس دھماکے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس طرح سے شہری پھیلاؤ کی رفتار تیز ہے اس سے 2050 تک آبادی کا 70 فیصد حصہ شہروں میں بس جائے گا۔ خیال رہے تاریخ میں پہلی بار صرف13 سال میں آبادی 1 ارب بڑھ گئی ہے تو اس کی وجہ دیگر شہروں میں انسان کی کامیابیاں ہیں۔ صحت کی بہتر دیکھ بھال، بنیادی چیزوں کی زیادہ دستیابی اور غیر فطری موتوں میں کمی کے اسباب آج انسان کی اوسط زندگی 68 سال ہے جبکہ1950 میں یہ عمر حد48 سال ہوا کرتی تھی۔ زیادہ لوگوں کا مطلب غذائیت ،پانی اور دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ کا اندیشہ بھی ہے جس سے آب و ہوا کی تبدیلی کی چنوتی زیادہ ہوسکتی ہے۔دنیا کا ہر چھٹا آدمی ہندوستانی ہے۔ اگر دنیا میں اناج یا پانی کی کمی سنگین رخ اختیار کرلیتی ہے تو اس کا سیدھا اثر بھارت کی زندگی اور ترقی کی توقعات پر پڑے گا۔ اس لئے ہمارے منصوبہ کاروں کو نئے حالات کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ ویسے بھی یہ چنوتی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق جو ایجادات اور انسانی سماج میں بڑھتی ذمہ داری نے آبادی کے اضافے کو گھٹا دیا ہے۔ آج دنیا کی آبادی ہر سال 1 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے جبکہ 1960 ء کی دہائی کے آخر تک یہ2فیصدی تھی۔ 1970ء میں دنیا میں فی خاتون 4.45 بچوں کا جنم ہوتا تھا جو شرح اب گھٹ کر2.45 تک آچکی ہے۔ یہ امید ایک حقیقی ہے لیکن فی خاتون2.1 بچے کی پیدائش کا نشانہ حاصل کرلیا جائے گا جس سے آبادی مستحکم ہوسکتی ہے۔ یعنی اگر مستقبل قریب کے حالات کو سنبھال لیا گیا تو پھر انسانیت کی خوشحال مستقبل کی امیدوں کو تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں اس سمت میں کام ہورہا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مذہب فیملی پلاننگ کا راستہ روک دیتا ہے۔ ہمیں ان باتوں سے اوپر اٹھنا ہوگا اپنے لئے نہ سہی لیکن اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ہی سہی۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Population, UNO, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟