دارالعلوم دیو بند کی نیک تجویز



Published On 4th November 2011
انل نریندر
 ہم دارالعلوم دیوبند کے تازہ بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ چناؤ اصلاحات کی سمت میں اسے ایک بڑا قدم مانا جاسکتا ہے۔ ایتوار کو لکھنؤ میں شیعہ عالم اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق نے کہا کہ مسلمان ایماندار امیدواروں کو جتانے کی کوشش کریں۔ اگلے ہی دن دارالعلوم دیوبند اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ووٹ ڈالتے وقت مسلمان یہ نہ دیکھیں کہ امیدوار کس مذہب یا کس برادری کا ہے انہیں صرف یہ دیکھنا چاہئے کونسا امیدوار علاقے کی ترقی کرسکتا ہے۔ اسلامی تعلیم کے اس مشہور مرکز کا یہ نظریہ اس لحاظ سے بیحد اہم ہے کہ مسلم ووٹ کے طلبگار لیڈر ہر چناؤ میں اپنی آرزو لیکر فتوے کے لئے دیوبند میں دستک دیتے ہیں۔ دوسرا مسلم ووٹ بینک حاصل کرنے کی خواہش میں مسلم اکثریتی والی سیٹوں پر مسلمانوں کو ٹکٹ دئے جاتے ہیں۔ اگر اس نظریئے روشنی میں دیکھیں تو مسلم امیدواروں کے سامنے خود کو غیروں سے بہتر ثابت کرنے کی چنوتی کھڑی ہوگئی ہے۔ دارالعلوم کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی نے کہا یہ اہم نہیں کہ امیدوار کس مذہب کا ہے۔ لوگوں کو دیکھنا چاہئے کہ کونسا امیدوار ان کے حلقے میں سب سے زیادہ ترقی دلا سکتا ہے اور کون ان کی سب سے زیادہ خدمت کرسکتا ہے؟ انہوں نے کسی بھی سیاسی پارٹی کا نام لئے بغیریہ بھی جوڑدیا کہ ووٹ دیتے وقت یہ خیال رکھا جائے امیدوار کسی فرقہ پرست پارٹی کا نہ ہو، سیکولر پارٹی کا ہونا چاہئے۔ غور طلب ہے دارالعلوم دیوبند نے پچھلے سال بھی ایک فتوی جاری کیا تھا۔ چناؤ میں مسلمان مذہب کو نہیں ملک کی ترقی کا خیال رکھیں۔ ادھر بریلی میں اعلی حضرت خاندان کے سینئر ممبر اور منتظم مدرسہ جامعہ نوریہ رضویہ کے منانی میاں نے کہا کہ ایم ایل اے، ایم پی چناؤ میں مذہب کے بجائے اہلیت اور کردار پر توجہ دینی چاہئے ۔ اگر مسلم لیڈر یا مذہبی پیشوا یہ بات آر ایس ایس کے ایک منچ پر آکر کہتے ہیں تو یہ خراب بات ہے۔ ظاہر ہے وہ کلب صادق اور سدرشن کی بات چیت کا حوالہ دی رہے تھے جو پچھلے دنوں ان سے ملے تھے۔
مسلم سماج کے بارے میں ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ ایک دقیانوسی اکیلاسماج ہے۔اس خیال کو ووٹوں کی یا مذہب کی سیاست کرنے والے خوب بھناتے ہیں۔ چاہے وہ ہندو کٹر پنتھی ہو یا خود ساختہ مسلم لیڈر ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ مسلم سماج میں مسلسل تبدیلی اور ذی شعوری آتی جارہی ہے جیسی کسی بھی سماج میں ہونی چاہئے۔ مسلم سماج اپنی حالت سے واقف ہے اور اسے بہتر بنانے کی کوشش میں ہے اسی نظریئے سے دارالعلوم دیوبند کے اس نظریئے کو دیکھا جانا چاہئے جو سیاسی اور مذہب کے بارے میں اس نے پیش کیا ہے۔ دارالعلوم کا یہ نظریہ اس کے نظریات میں سیکولرازم کی جھلک دکھاتا ہے۔ اسی طرح کی باتوں سے ان مسلم لیڈروں کو ضرور پریشانی ہو سکتی ہے جو مذہب اور ووٹ کی سیاست کرتے ہیں۔ ہم دارالعلوم دیوبند اور کلب صادق کے بیانوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Deoband, Elections, Kalbe Sadiq, Religion, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟