محض پابندی سے نہیں سخت سزا سے ہی فکسنگ پر لگام ممکن



Published On 4th November 2011
انل نریندر
پاکستان کرکٹ کے لئے منگلوار کا دن بیحد شرمناک ثابت ہوا۔ اس کے دو کرکٹروں سابق ٹیسٹ کپتان سلمان بٹ اور تیز گیند باز محمد آصف کو لندن کی عدالت نے اسپارٹ فکسنگ کا قصوروار قراردیا ہے۔ ساؤتھ ورک کراؤن کورٹ کی 12 نفری جیوری نے 27 سالہ بٹ کو غلط طریقے سے پیسہ لینے کی سازش اور دھوکہ دھڑی کا قصوروار پایا ہے۔ وہیں آصف کو دھوکہ دھڑی کی سازش کا قصوروار مانا گیا ہے۔ مقدمے کی سماعت کے 20 ویں دن عدالت نے انہیں قصوروار ٹھہرایا۔ سزا جلد سنائی جائے گی اور تب تک وہ ضمانت پررہیں گے۔ بٹ کو زیادہ سے زیادہ سات سال کی سزا اور آصف کو زیادہ سے زیادہ دو سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس معاملے میں تیسرے ملزم محمد عامر کو مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ اس نے پہلے ہی جرم قبول کرلیا تھا۔ عامر کو سکینڈل میں اس کے کردار کے لئے سات سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ معلوم ہو کہ بند ہوچکے برطانوی جریدے 'نیو آف دی ورلڈ 'نے اسٹنگ آپریشن کرکے اس اسکینڈل کا خلاصہ کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ آصف اور بٹ نے سٹے باز مظہر مجید سے مل کر انگلینڈ کے خلاف لارڈس میں ہوئے ٹیسٹ میچ میں نو بال پھینکنے کی سازش رچی تھی۔ اس خلاصے کے بعد ان تینوں کے ہوٹل کے کمروں میں چھاپے مارے گئے جس میں نقدی برآمد ہوئی تھی۔ آصف پر غلط طریقے سے پیسہ لینے کے لگے الزام پر جیوری بٹی ہوئی تھی جس کے بعد اس پر پھر سے غور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسپارٹ فکسنگ معاملے میں جیوری کے فیصلے سنانے کے ساتھ ہی سلمان بٹ اور محمد آصف عدالت کے اندر بغیر کوئی رد عمل ظاہر کئے اپنی جگہ پر ایسے بیٹھے رہے جیسے کے پتھر کی مورتی بن گئے ہوں۔ برطانوی میڈیا اور عدالت میں موجود دیگر لوگ دونوں کے چہرے پر آئے اثرات پڑھنے کیلئے ان کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن تب تک ان دونوں کے چہرے اتر چکے تھے اور وہ بس جیوری کی طرف دیکھے جارہے تھے۔ یہ بھی عجیب و غریب اتفاق رہا کہ جب جیوری نے بٹ کو قصوروار قراردیا اس سے کچھ ہی دیر پہلے ان کی اہلیہ گل حسن نے دوسرے لڑکے کو جنم دیا۔
اسپارٹ فکسنگ کے اس معاملے میں فیصلہ آنے کے بعد عالمی کرکٹ دنیا میں رد عمل ہونا فطری ہے۔ حالانکہ پی سی بی یعنی پاکستان کرکٹ بورڈ اس فیصلے پر خاموش ہے۔ اس کا کہنا ہے یہ قانونی معاملہ ہے اور آئی سی سی اس کی جانچ کررہی ہے لیکن آئی سی سی کے سابق سی ای او احسان مانی نے کہا کہ لندن کی عدالت کا فیصلہ پی سی بی کے لئے سخت سندیش ہے اور آصف اور بٹ اسی کے لائق تھے۔ متنازعہ دورے پر پاک ٹیم کے منیجر رہے یاور سعید نے اس پورے معاملے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا مجھے بہت دکھ محسوس ہورہا ہے کیونکہ اس وقت ایک منیجر کے طور پر میں نے سبھی کھلاڑیوں کو برے لوگوں سے دور رہنے اور صرف کھیل پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاح دی تھی۔ انہیںیہ سمجھناچاہئے جب اگر دیش کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ ایسی بدتر حرکت کریں تو اس کے آپ کو برے انجام کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ٹیم انڈیا کے کپتان مہندر سنگھ دھونی نے کہا صرف کھلاڑی ہی میچ فکسنگ نہیں کرتے کبھی کبھی امپائر بھی پرستاروں کی ملی بھت سے ایسا کرتے ہیں لیکن اس رپورٹ کو دبادیا جاتا ہے۔ یہ کرپشن کی سب سے بڑی مثال ہے اس کے آگے سب پھینکے ہیں۔ سابق آئی پی ایل چمپئن للت مودی نے ٹوئیٹر پر لکھا ہے کہ مجھے اس پر کبھی شبہ نہیں رہا کہ پاک کرکٹر میچ فکسنگ میں شامل رہتے ہوں۔ انہیں جیل میں ڈال دینا چاہئے تاکہ باقی کھلاڑیوں میں خوف پیداہو۔ ویسے قارئین کو بتادیں کہ اسپارٹ فکسنگ کے ریٹ اتنے زیادہ ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرکٹروں کو کوئی خاص بڑی رقم بطور فیس نہیں ملتی ان کے لئے اس سے اوپر اٹھنا مشکل ہے۔ ایک ٹیسٹ میچ کے لئے فکسنگ ریٹ 7.5 کروڑ روپے ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کا0.3 کروڑ روپے۔ 10 اوور کا 60 لاکھ روپے اور نو بال کا 7.5 لاکھ روپے۔ پاکستانی کھلاڑی جب پڑھتے اور سنتے ہوں گے کہ بھارت کے کرکٹروں کو کتنا پیسہ ملتا ہے تو ظاہر ہے وہ اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتے ہوں گے۔ حال ہی میں بی سی سی آئی نے ٹیم انڈیا کے لئے نئے گریڈ کا اعلان کیا ہے۔ گریڈ اے میں سالانہ 1 کروڑ روپے، بی گریڈ میں50 لاکھ روپے، سی گریڈ میں 25 لاکھ روپے۔جب پاکستانی کھلاڑی یہ دیکھتے ہیں کہ بھارتیہ کھلاڑیوں کو اتنا پیسہ ملتا ہے تو وہ بھی زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کی سوچتے ہیں اور کرکٹ میں لمبی پاری نہیں کھیلی جاسکتی۔ کچھ ہی برسوں کے لئے آپ ٹاپ پر ہوتے ہیں اس لئے جلدی سے جلدی پیسہ کمانے کی دوڑ لگی رہتی ہے۔ دراصل اس سے بھارت میں اچھوتا نہیں رہا، محمد اظہرالدین، اجے شرما، منوج پربھاکر، اجے جڈیجہ ان کھلاڑیوں میں ہیں جن پر تاحیات پابندی لگی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ سٹے باز جان کو موسم اور پچ کی جانکاری دینے پر آسٹریلیائی کرکٹ بورڈ نے مارکوا اور شین وارن پر جرمانہ لگایا تھا۔ نومبر2010 ء میں پاکستان کے وکٹ کیپرذوالقرنین حیدردوبئی میں جنوبی افریقہ کے خلاف پانچواں ونڈے میچ چھوڑ کر آگئے اور الزام لگایا کہ انہیں خراب کارکردگی کے لئے دھمکی دی جارہی ہے۔ اسی کی بنیاد پر انہوں نے ریٹائرڈ منٹ مانگی ہے۔ پیسہ کا لالچ کبھی کبھی کھلاڑی کو ساری حدیں توڑنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس میں سٹے بازوں اور دلالوں کا بھی بڑا یوگدان ہے اور بھارتیہ سٹے باز تو اس میں ماہر ہیں۔ یہ سخت قانون اور سخت سزا سے ہی رک سکتا ہے۔ بی سی سی آئی نے 2000 ء میں کرکٹ سے فکسنگ کو' آؤٹ' کرنے کی سمت میں سخت قدم اٹھائے اور اپنے کھلاڑیوں پر پابندی لگائی۔ اس کے اچھے نتیجے رہے کم سے کم اس کے بعد کسی ہندوستانی کرکٹ کھلاڑی پر فکسنگ کا الزام تو نہیں لگا۔ حالانکہ سابق کرکٹروں کا کہنا ہے پابندی تو ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ سزا بھی ہونی چاہئے۔ انگلینڈ کی عدالت نے راستہ دکھا دیا ہے اب دنیا کے سبھی کرکٹ بورڈوں اور سرکاروں کو بھی ایسا کرنا چاہئے۔ مجھے محمد عامر پر ضرور تھوڑا دکھ ہورہا ہے۔ اچھا نوجوان بالر ہے ۔ان کے چکر میں وہ پھنس گیا ہے اور اپنا شاندار مستقبل چوپٹ کرلیا ہے۔ ان تینوں کے ایجنٹ اور مبینہ سٹے باز مظہر مجید نے سٹے بازی معاملے کا حصہ ہونا نہ صرف قبول کرلیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی مانا ہے کہ اس نے ان تینوں کھلاڑیوں کو 77 ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ دی تھی
Anil Narendra, Cricket Match, Daily Pratap, London, Match Fixing, Pakistan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟