فارمولہ 1- کی دنیا میں اب بھارت بھی شامل ہوا



Published On 1st November 2011
انل نریندر
 گریٹر نوئیڈا میں ایتوار کا دن کھیلوں کی دنیا میں انتہائی اہمیت کا حامل اور تاریخی رہا۔ یہاں بودھ انٹرنیشنل سرکٹ پر پہلی انڈین گراپری کا فائنل مقابلہ ہوا۔ اسی کے ساتھ ہی دیش کا نام گراپری تاریخ کے ان سنہرے اوراق میں درج ہوگیا ۔ فارمولہ۔1 کی تاریخ کی جڑیں1947 ء سے بھی پہلے یوروپین گراپری موٹر ریسنگ سے وابستہ ہیں۔ 1920 اور 1930ء میں گریٹر دوڑ منعقد کی گئی تھی۔ حالانکہ فارمولہ۔1 کا آغاز 1946 ء میں فیڈریشن انٹرنیشنل آٹو موبائل کے قواعد کے مطابق ہوا۔ 1950 ء میں ورلڈ ڈرائیورس چیمپئن شپ منعقد کی گئی تھی۔ برطانیہ میں1960-70 میں اس ریس کا انعقاد ہوا اور جنوبی افریقہ میں 1983ء میں ایسی ریس کا انعقاد کیا گیا۔ پھر بڑھتی مقبولیت کے چلتے میکسیکو اور ابوظہبی اور سنگاپور فارمولہ 1- ریسنگ شہر کے طور پر سامنے آئے۔ دراصل یہ کھیل موٹر اسپورٹس کا حصہ ہے۔ فارمولہ1- موٹراسپورٹس کا سب سے اوپری مرحلہ ہے۔ یہ ریس آدمی اور مشین مل کر کھیلتے ہیں۔ دونوں میں تال میل سے ہی ہار جیت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ تکنیکی و رفتار اور ہنر کا انوکھا سنگم ہے۔
ایتوار کو منعقدہ پہلی انڈین گراپری ریس میں پچھلے سال کے ورلڈ چمپئن اور اس سال خطاب پہلے ہی اپنے نام کرچکے ریڈ بل ریسنگ ٹیم کے ویٹل نے بودھ انٹر نیشنل سرکٹ میں کسی کو موقعہ تک نہیں دیا اور بی آئی سی سی کے لیپ انہوں نے ایک گھنٹہ30 منٹ میں 35.00 دو سیکنڈ میں پورا کرکے جیت درج کرلی۔ دو بار ڈرائیورس چمپئن شپ جیتنے والے ویٹل نے یہ کارنامہ سب سے کم عمر میں کرنے کا نیا ریکارڈ بنا کر دکھایا۔ ریس میں حصہ لینے والے ڈرائیورس نے ریس کے بعد کہا کہ بودھ انٹرنیشنل سرکٹ دنیا کے بہترین سرکٹوں میں سے ایک ہے۔ ایتوار کے دن ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا نے F-1 ریسنگ میں گلیمر، چمک دمک ، جشن اور رفتار کا حیرت انگیز مزہ لیا۔ ریسنگ ٹریک جے پی اسپورٹس انٹرنیشنل کمپنی نے چار کروڑ ڈالر کی لاگت سے تیار کیا تھا۔ فارمولہ1- ریس محض رفتار کا ہی ایک تفریح نہیں بلکہ یہ بھارت کی رفتار ہے۔ بھارت کا وقار اور شان ہے۔ کامن ویلتھ کھیلوں، گھوٹالوں سے بدنام ہوئے ہندوستان کو اس مائنڈ گلوئنگ ریس کے کامیاب انعقاد سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ ہندوستانی فلم صنعت کے ذریعے کئے جانے والے شاندار انعقاد کی طرح ایتوار کو فلمی ستاروں، کھلاڑیوں کا گلیمر کا زبردست تڑکا لگا۔ بھارت ایک بہت بڑا بازار ہے اور دنیا کی سبھی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھارت میں اپنے پیر جمانا چاہتی ہیں۔ اس ریس سے بھارت کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر انڈیا کے طور پر مقبولیت ملے گی۔ کئی بین الاقوامی ایجنسیوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وقت پر یہ ٹریک تیار نہیں ہوگا۔ اس میں کئی خامیاں گنائی گئیں لیکن بھارتیوں نے دکھا دیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو وہ کچھ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
Anil Narendra, Buddha Circuit, Daily Pratap, F1, Greater Noida, India, JP Group, Vir Arjun 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!