فاروق اور عمر عبداللہ دونوں ہی کٹگھرے میں



Published On 11th October 2011
انل نریندر
 پچھلے کچھ دنوں سے کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ سرخیوں میں ہیں اور کشمیر نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر کی پر اسرار حالت میں موت پر سیاست جاری ہے۔ حکمراں نیشنل کانفرنس کے ایک نیتا سید محمد یوسف کی موت سے ایک بھاری تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ یوسف کا الزام ہے کہ اس نے نیشنل کانفرنس کے دو لیڈروں سے کل ایک کروڑ 15 لاکھ روپے لئے تھے ان دونوں لیڈروں سے اس پیسے کے عوض میں سرکار نے کچھ کام کرانے کا وعدہ کیا تھا ۔ کام نہیں کیا تو جھگڑا وزیر اعلی عمر عبداللہ تک پہنچا۔ شکایت کنندہ اور ملزم کو وزیر اعلی کے کیمپ آفس بلایا گیا۔ بعد میں یوسف کی پر اسرار حالت میں موت ہوگئی۔اس دوران ایک چشم دید گواہ سامنے آگیا۔ اس نے دعوی کیا کہ فاروق عبداللہ۔ عمر سرکار نے کسی کو وزیر بنانے یا ممبر اسمبلی بنوانے کے لئے پیسے وصولتے تھے۔ واقعے کے بعد چشم دید اور نیشنل کانفرنس کے ہی ورکر سلمان ریشی نے نیوز چینل کو دئے گئے اپنے بیان میں دعوی کیا ہے کہ موت سے پہلے عمر عبداللہ اور یوسف کے درمیان پیسے کے لین دین کو لیکر جھگڑا ہوا تھا۔ ریشی کا کہنا ہے کہ وہ پیسہ ایک پارٹی ورکر نے منتری بننے کے بعد فاروق عبداللہ کو دیا تھا۔ اس کا دعوی ہے کہ وزیر اعلی کے گھر میں عمر اور یوسف کی ملاقات کے دوران وہ موجود تھا۔ عمر عبداللہ نے اس کی تردید کی ہے۔ ریشی کا دعوی ہے کہ جب یوسف عمر سے ملنے گئے تھے تو وہ ٹھیک تھے۔ وزیر اعلی کی رہائش گاہ سے باہر آنے کے بعد ان کی حالت خراب تھی۔ ریشی نے کہا کہ اس نے عمر نے یوسف سے پوچھا کہ کیا انہیں یہ پیسے ملے ہیں۔ اس کے بعد سید یوسف نے عمر سے کہا کہ وہ ان کے پاس والے کمرے میں اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہے۔ عمر نے ان کی بات نہیں مانیں۔ یوسف نے تب کہا کہ وہ اس معاملے کو سلجھانے کے لئے فاروق عبداللہ کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔
کشمیر کی بڑی اپوزیشن پارٹی پی ڈی پی نے عمر عبداللہ کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے زبردست ہنگامہ کررکھا ہے۔ الزامات سے گھرے باپ بیٹے عمر عبداللہ اور ان کی پارٹی نے نیشنل کانفرنس محاذ کی سیاست میں الگ تھلگ پڑتے نظر آرہے ہیں۔ کانگریس کے زیادہ تر لیڈر جہاں اس مسئلے پر چپ ہیں وہیں کئی لوگ نجی بات چیت میں وزیر اعلی سے استعفے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں۔ ایک دوسری ساتھی پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک فورم نے اس معاملے میں غیر جانبدارانہ جانچ کی مانگ کی ہے۔ وہیں مارکسوادی لیڈر محمد یوسف پریگامی اور آزاد ممبر رشید نے بھی ایوان میں اس معاملے پر بحث کے لئے بڑی اپوزیشن پارٹی پی ڈی پی کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ گذشتہ تین سال کی سیاست میں شاید وزیر اعلی عمر عبداللہ نے خود کو کبھی اتنا لاچار محسوس نہیں کیا ہوگا جتنا موجودہ ماحول میں وہ کررہے ہیں۔ پراسرار حالات میں مرے یوسف کے رشتے داروں نے سنیچر کو تین تصویریں جاری کی تھیں ان کے ذریعے سے رشتے داروں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یوسف کے چہرے پر اذیتوں کے نشانے نظر آرہے ہیں۔ ایک تصویر یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ یوسف وزیر اعلی عمر عبداللہ اور ان کے والد فاروق عبداللہ کا خاص آدمی تھا۔ پولیس دعوی کررہی ہے یوسف کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی جبکہ سرینگر کے ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ نے معاملے کی جانچ شروع کردی۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں لگتا کہ مرحوم نیشنل کانفرنس ورکر سید محمد یوسف ،فاروق اور عمر دونوں کو قریب سے جانتا تھا۔ کسی نہ کسی سطح پر پیسوں کا لین دین ضرور ہوا۔ سوال اتنا رہ جاتا ہے کہ 30 ستمبر کو پولیس حراست میں یوسف کی موت کیسے ہوئی؟ دل کے دورہ سے یا پھر کسی اور وجہ سے....
Anil Narendra, Daily Pratap, Farooq Abdullah, Jammu Kashmir, Umar Abdullah, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟