ایرانی ہیروئن کو ایک سال قید و 90 کوڑوں کی سزا


Published On 14th October 2011
انل نریندر
ہم نے افغانستان میں طالبان کی خواتین پر مظالم کے بارے میں تو سنا تھا لیکن ایران جیسے ملک میں اس طرح کی بربریت کو سن کر ضرور حیرت ہوئی۔ آج کے زمانے میں کسی خاتون کو کوڑے مارے جائیں یہ بات ہضم کرنا تھوڑی سی مشکل ہے لیکن ایران میں ایسا ہی ایک قصہ سامنے آیا ہے۔ یہاں ایک فلمی ہیروئن کو 90 کوڑے مارنے اور ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اداکارہ پر الزام ہے اس نے ایسی فلم میں اداکاری کی جو دیش کے فنکاروں پر لگی پابندی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایران میں اپوزیشن کی ایک ویب سائٹ کے مطابق بیجا برتاﺅ پر مبنی 'مائی تہران فار سیل' (میرا تہران بکاﺅ ہے) نامی فلم میں اداکاری کرنے کےلئے ایک سال قید اور90 کوڑے مارے جانے کی سزا سنیچر کو سنائی
 گئی۔ یہ فلم ایک نوجواں اداکارہ کی کہانی ہے جو ایران میں اداکاری پر پابندی لگا دئے جانے کے بعد چپ چاپ اپنے شوق کو زندہ رکھتی ہے۔ یہ فلم ایران میں ممنوع ہے لیکن چوری چھپے اس کو دکھایا جارہا ہے۔ اسے ایران کے کٹرپسند خیمے کی طرف سے احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایرانی اداکارہ مرزیا وفا مہر کا جرم بس اتنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی فلم میں کام کیا جس میںدیش کے فنکاروں کی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔
مرزیا کا قصور واضح نہیں کیا گیا ہے لیکن انہیں سزا ملی ۔جس نے دنیا میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ 'مائی تہران فار سیل' فلم کی شوٹنگ ایران کی راجدھانی تہران میں ہوئی۔ یہ ایک ایسی نوجوان اداکارہ کی کہانی ہے جس کے اسٹیج ورک پر حکومت نے پابندی لگا دی ہے۔ اس فلم میں جدید شہر ایران کو نظرانداز کرتا دکھایا گیا ہے۔ یہ فلم بتاتی ہے کہ بند دروازوں کے اندر ایران کے نوجوان کس طرح جیتے ہیں۔ اس فلم کو 2009 ءمیں"انڈیپینڈنٹ اسپریٹ انسائڈ فلم ایوارڈ" بھی ملا ہے۔پچھلے سال ٹرائی میڈیا فلم فیسٹیول میں بھی اس نے مغرب کی تھیم پر فلم کے لئے جیوری ایوارڈ جیتا تھا۔ فلم کی ایران ،آسٹریلیا نژاد گریناز موسوی نے ہدایت دی ہے۔ فلم آسٹریلیا کی ایجیلینٹ کی کمپنی سیان نے بنائی ہے۔ ایران کی اداکارہ اس فلم میں بغیر پردے کے ہیں اور ان کے سرکو گنجا دکھایا گیا ہے۔ اس معاملے میں سب سے پہلے انہیں اس سال جولائی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تبھی سے وہ جیل میں بند ہیں۔ حالانکہ حکومت نے مرزیا پر لگے الزامات کو نہیں بتایا لیکن اخبار 'دی ایج' کے مطابق فلم کو ایران میں دکھانے کے لئے منظوری نہیں ملی تھی اور اسے غیر قانونی طریقے سے بانٹا جارہا ہے۔ ویسے مرزیا کے شوہر ناصر تقوی خود ایران کے جانے مانے فلم ساز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فلم کو حکومت سے اجازت لینے کے بعد ہی بنایا تھا۔ ان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیل کی ہے۔ ایک آزاد جدید ملک میں کسی شخص کے بدن پر 90 کوڑے کی سزا کے بارے میں تصور کرنا بھی آج کی تاریخ میں مشکل ہے۔ یہ خبر پڑھ کر خوف پیدا ہوتا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ فلم کے ڈائریکٹر گرےناز موسوی نے کہا کہ مرزیا پر لگے الزامات بے بنیاد ہیں۔ فلم بنانے کو لیکر جتنے بھی پرمٹ لئے گئے تھے ہم انہیں کورٹ میں دکھا چکے ہیں۔
Anil Narendra, Bhanwri Devi, CBI, Daily Pratap, Rajassthan, Rajasthan High Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟