پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں چینی موجودگی ہند کیلئے تشویش کاباعث



Published On 9th October 2011
انل نریندر
بھارت کے فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے اس اندیشے کی تصدیق کردی ہے جو پچھلے کئی دنوں سے پیدا تھا۔بری فوج کا صدر جنرل سنگھ نے بدھ کے روز کہاکہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں چین کی فوج پیپلز لیبریشن آرمی فوجی سمیت قریب چار ہزار چینی لوگ موجود ہے۔ یہاں تعمیراتی کام زوروں پر ہے ان میں سے کچھ وہاں سیکورٹی مقاصد سے بھی موجود ہے۔ یہ علاقہ متنازعہ ہونے کے ساتھ بھی بھارت پاک کے درمیان کنٹرول لائن کے کافی قریب ہے سنگھ یہ بیان پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں انہی فوجوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں بھارت میں جتائی جارہی تشویشات کے پس منظر میں آیا ہے۔ ائر فوج کے چیف ائر چیف مارشل اے این براؤن نے ایک انٹرویو کے دوران یہ صاف کہاہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں چین کی موجودگی بڑھنے سے بھارت کی توجہ اس طرف مرکوز ہوئی ہے۔ پچھلے برس یہ خبر آئی تھی کہ جموں وکشمیر کے پی او کے کلکٹ بلستان خطہ میں قریب گیارہ ہزار چینی فوجی موجود ہے۔ چین کے خطرناک منصوبے کو لے کر جنرل سنگھ کی وارننگ کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اس سال یہ تیسرا موقعہ ہے جب سینئر فوجی یا سیاسی لیڈر شپ نے دیش کی سرحد پر چین کی حرکتوں کو لے کر تشویش ظاہر کی ہے یہ اس لئے بھی زیادہ تشویش کاموضوع ہے کہ چینی دراندازی اور اب پی او کے میں ہورہی ہے۔ وہاں بڑے پیمانے پر سڑکیں ، ہوائی اڈے وغیرہ کی تعمیر جیسی چینی حرکتیں پاکستان کے ذریعہ اس کی اجازت دینا بھارت کے لئے تشویش کا سبب ہوناچاہئے۔ پہلے ہی پاکستان نے ہزاروں مربع میل کا مقبوضہ کشمیر کاعلاقہ چین کے حوالے کردیاتھا۔ ہندوستان کو بھیجنے کی اس حکمت عملی پر یہ دونوں دیش برسوں سے کام کررہے ہیں یہ قدم اسی سمت میں اٹھایا گیا ہے۔ اور ایک اور قدم ہے۔اس کے معنی میں یہ بڑا حوصلہ افزا قدم ہے کہ اس سے بھارت کے خلاف چین اور پاکستان کے ناپاک ارادے ایک بار پھر فاش ہوجاتے ہیں پچھلے دنوں ہندوستانی سرحد میں گھس کر فوجی بنکروں کو تباہ کرنے اور ہندوستانی علاقے کی خلاف ورزی کرنے کے بعد بیجنگ اب پاکستانی مقبوضہ کشمیرمیں کنٹرول لائن کے بالکل قریب سڑکیں اور باندھ بنارہا ہے یہ بھی ایک محض اتفاق نہیں ہے کہ ادھر چینی ادھر پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں چینی سرگرمیاں بڑھتی ہے توادھر ہمارے کشمیرمیں آتنکیوں کی دراندازی بڑھ جاتی ہے۔بھارت افغانستان کے درمیان ہوئے فوجی سمجھوتے کے بعد پاکستان کی مایوسی کو دیکھتے ہوئے دراندازی اور دہشت گردی کے مورچے پر ہمیں زیادہ چوکس رہناہوگا کیونکہ اس کی پیٹھ پر اسکاہاتھ ہے۔ چینی گھس پیٹھ پر بھارت کی تشویش اور شکایت واجب ہے بھارت کاحصہ ہونے کے سبب پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کاقبضہ ہی ناجائز ہے تب وہاں کسی تیسرے ملک کے ذریعہ تعمیراتی کاکام کوئی جواز نہیں بیٹھتا ہے۔ اس لئے اپنی عادت کی مجبور چین کی تردید کا کوئی مطلب نہیں ہوناچاہئے۔ ہمیں اپنا احتجاج جاری رکھتے ہوئے اپنی سلامتی کو مزید سخت کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ چین پچھلے عرصہ سے اپنی فوجی صلاحیت بڑھارہاہے وہ بھارت کے لئے ہی نہیں پوری دنیا کے لئے تشویش کاموضوع ہے۔ لیکن جہاں تک ہندوستان کاسوال ہے کہ ایک بار چین سے دھوکہ کھانے کے بعد ہمارے حکمراں نہیں سنبھلیں ۔ پچھلے دنوں وزیر دفاع نے خود تسلیم کیاتھاکہ سرحد پر سڑکوں اورہوائی اڈوں جیسی ڈھانچہ بند سہولیات کی فروخت کو لے کر ہم لاپرواہ تھے جان بوجھ کر برتی گئی اس لاپروائی کے پیچھے جو سوچ تھی وہ بھی ڈراؤنی تھی ہمیں یہ ڈر تھاکہ سرحد پربنے ڈھانچے کہیں چینی حملے کے وقت اس کی سہولت نہ بن جائے۔ مطلب ہم 1962کے حملے چینی اور اس سے ملی چینی شرمناک ہار سے آج تک نہیں نکل پائے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پچھلے کچھ عرصہ سے چینی حرکتوں کو چھپانے کی کوشش رہتی تھی۔ شکر ہے کہ چین کی بڑھتی دبنگئی اور اس کی سازشی قدموں کو بھارت اب اچھی طرح سے سمجھنے لگا ہے۔ چین کے خلاف من مانی کرتے ہوئے جنوبی چین ساگر میں مشترکہ طور سے تیل وگیس کی تلاشی کاکارروائی کرنا صحیح سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔ چین کو قابو میں رکھنے کے لئے ضروری ہے اس پر ہر طریقہ سے جوابی دباؤ بنایا جائے ہمیں اپنی سرحد پر ڈھانچہ بندی کاموں کو جلد سے جلد پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری فوجیں پوری طرح سے چوکس رہے اور چینی پاکستانی مشترکہ سرگرمیوں پر گہری نظررکھیں۔
Aksai Chin, Anil Narendra, China, Daily Pratap, India, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟