غروب ہوگیا غزل کا روشن آفتاب



Published On 13th October 2011
انل نریندر
غزل سرائی کے سرتاج جگجیت سنگھ اب نہیںرہے۔ ان کی لیلاوتی ہسپتال میں موت ہوگئی۔ خیال رہے 23 ستمبر کو ان کو دماغ کی نس پھٹنے کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا تبھی سے وہ نزعے میں تھے۔ 70 سالہ جگجیت سنگھ کےغمزدہ خاندان میں ان کی اہلیہ چتراسنگھ بچی ہیں۔ 1990 میں ان کے بیٹے وویک کی سڑک حادثے میں موت ہوگئی تھی تب سے جگجیت سنگھ غم سے باہر نہیں نکل پائے۔ اندر ہی اندر ان کو بیٹے کی موت کا غم کھا گیا تھا۔ منگل کے روز ان کا انتم سنسکار مرین لائنس کے چندن واڑی بجلی شمشان گرہ میں کیا گیا۔ اس وقت ان کے بھائی کرتار سنگھ دھیمن نے اگنی دی۔ انتم سنسکار کے وقت موجودلوگوں میں نغمہ نگار گلزار، جاوید اختر سمیت کئی بالی ووڈ ہستیاں موجود تھیں۔ راجستھان کے شری گنگا نگر میں پیدا جگجیت سنگھ گذشتہ صدی کے ساتویں اور آٹھویں دہائی میں غزل کو درباری روایت سے نکل کر عام آدمی کے قریب لائے۔ انہوںنے نور جہاں، طلعت محمود، مہندی حسن جیسے بڑے غزل گلوکاروں کے دور میں غزل کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ جگجیت نے غزل کو ہندوستانی سنگیت کی شاستریہ روایت سے تھوڑا الگ طرح سے پیش کیا جسے لوگوں نے خوب سراہا۔
ان کی بیماری اور موت سے سارے دیش میں جو اظہار غم کیا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے مقبول تھے ۔ ان کی مقبولیت اس پیڑھی میںتب ہوئی جب غزل کی مقبولیت کا دور ایک طرح سے ختم ہورہا تھا۔ اگر ہم یہ کہیں کے دراصل بھارت میں غزل کی مقبولیت کا دور جگجیت سنگھ کے ساتھ شروع ہوا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ان سے پہلے ہندوستان میں بیگم اختر اور طلعت محمود جیسے غزل گلوکار تھے اور پاکستانی غزل گلوکار مہندی حسن اور غلام علی کا اثر تھا لیکن ان کے چاہنے والے محدود لوگ تھے۔ جگجیت سنگھ نے غزل کو عام ہندوستانیوں میں مقبول بنایا بلکہ غزل سننا آج ایک فیشن ہوگیا ہے۔ جس وقت جگجیت نے سنگیت کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت مہندی حسن کی طوتی بولتی تھی۔ جگجیت نے افتتاح میں مہندی حسن کے اثر میں گانا شروع کیا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ برسوں کے بعد پاکستانی آرٹسٹوں کی مخالفت میں سب سے زیادہ آواز اٹھی تھی۔ شاید اپنے پاکستان دورہ میں ہوئے تجربے نے انہیں تلخ بنادیا تھا۔ جلدہی انہوں نے اپنا ایک نرالہ انداز پیش کیا جس میں غزل کے ساتھ جدید آرکیسٹرا اور یوروپی انداز شامل تھا۔جگجیت سنگھ کی سریلی آوازنے غزل گائیکی کو عام لوگوں تک مقبول بنایا۔ گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ جگجیت بہت اچھے میوزک ڈائریکٹر بھی تھے اپنی غزلوں کی دھنیں خود بناتے تھے اور کئی فلموں میں انہوں نے میوزک بھی دیا۔
ان کے جانے سے اس سیکٹر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے جگجیت کے دیوانوں کی فہرست میں ہر عمر کے شائقین شامل ہیں۔ جگجیت سنگھ کوامیتابھ بچن نے ان لفظوں میں شردھانجلی دی جگجیت سنگھ کی مخملی آواز اب اس دنیا میں خاموش ہوگئی ہے غزل سمراٹ کا جانا میوزک صنعت اور ان کےچاہنے والوں کے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔ ان کے انتقال سے میوزک اور غزل کی دنیا کا سونا پن پر ہونا مشکل ہے۔ میں ان کے لئے ایشور سے پرارتھنا کرتا ہوں۔ الوداع جگجیت۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Ghazal, Jagjit Singh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟