اترپردیش میں چناؤ فروری میں ہوں گے؟



Published On 12th October 2011
انل نریندر
 سیاسی حلقوں میں اس بات کی بحث زوروں پر چھڑی ہوئی ہے کہ اترپردیش میں اسمبلی انتخابات وقت سے پہلے کرائے جاسکتے ہیں۔ موصولہ اشاروں سے لگتا ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو اتراکھنڈ، پنجاب اور منی پور کے ساتھ اگلے سال فروری میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے ساتھ اترپردیش کے چناؤ بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ بہن جی کا جس طرح سے چھٹائی آپریشن جاری ہے اس سے اس اندیشے کو تقویت ملتی ہے ۔ چناؤ کمیشن نے اپنی پختہ تیاریاں کرلی ہیں۔ ہوسکتا ہے اگلے مہینے کی20 تاریخ کے آس پاس چناؤ پروگرام کا اعلان ہوجائے۔ سنیچر کو چیف الیکشن افسر امیش سنہا کی یوپی کے کیبنٹ سکریٹری ششانک شیکھر سنگھ کے ساتھ ہوئی طویل بات چیت کو بھی فروری میں چناؤ کرانے کی کوشش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ محترمہ مایاوتی پوری طرح سے چناؤ کی تیاریوں میں جٹ چکی ہیں۔ مایاوتی تقریباً40 ممبران کا ٹکٹ کاٹ چکی ہیں۔ کئی وزرا کو بھی پارٹی سے باہر کار راستہ دکھایا جاچکا ہے۔ جس طرح لوک آیکت کے پاس ریاست کے وزراء کی شکایتیں آرہی ہیں اس کے پیش نظر بہن جی کی پریشانیاں بڑھنا لازمی ہیں۔ کیونکہ جب لوک آیکت کی سفارش پر کچھ وزراء کو ہٹایا گیا ہے تو باقی کے بارے میں کچھ الگ فیصلہ ان کے لئے مشکل ہوگا۔ اب تو لگتا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا وزیر بچے جس کی کرسی محفوظ ہو اور یہ حالت بہن جی کو راس آتی ہے۔ مایاوتی یہ بھی جانتی ہیں کہ 2 اپریل 2012ء کو راجیہ سبھاکے 11 ممبران کی میعادختم ہورہی ہے لہٰذا اس سے پہلے چناؤ طے ہیں۔ اگر فروری میں چناؤ نہیں ہوتے تو یہ دور اسمبلی انتخابات کا ہوگا۔ ایسے میں مایاوتی کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچنے والا ہے۔ کیونکہ 224 ممبران میں سے 31 کا اب تک ٹکٹ کاٹ چکی ہیں۔ ابھی اس میعاد میں راجیہ سبھا میں 5 بسپا کے ممبران ہیں۔ ایسے میں ایک ممبر کے لئے 36.6 ممبران کی حمایت ضروری ہے۔ اس لحاظ سے مایاوتی پھر پانچ سے زیادہ راجیہ سبھا ممبر نہیں بنوا سکتیں۔ الیکشن کمیشن کو یہ سہولت حاصل ہے کہ اس نے پنجاب اور اتراکھنڈ کے چناؤ کے پیش نظر پہلے ہی آئی سی ایس سی اور سی بی ایس ای بورڈ کے امتحانات کو ذہن میں رکھ کر خاکہ تیار کیا ہے۔ اتراکھنڈ میں نئی اسمبلی 12 مارچ کو تشکیل ہو جانی چاہئے۔
کانگریس کو بھی اس امکان کے بارے میں معلوم ہے اور وہ بھی اپنی تیاریوں میں لگ گئی ہے۔ اترپردیش میں ٹھنڈے بستے میں پڑی کانگریس کی مہم کو پھر سے تیزی دینے کے لئے کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی نومبر میں میدان میں اترنے والے ہیں۔ ذرائع کے مطابق راہل پہلی تا 30 نومبر تک الہ آباد، بلیا، قنوج، بدایوں، لکھیم پور کھیری میں ریلیاں کرسکتے ہیں۔ راہل کی مہم میں پردیش کی بسپا سرکار سپا اور بھاجپا کے علاوہ انا ہزارے بھی نشانے پر ہوں گے۔ پردیش چناؤ مہم کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں ممکن ہے کہ راہل کے پلان کو قطعی شکل دے دی جائے۔ دراصل حصار کے بعد یوپی کے اسمبلی چناؤ میں کھیل بگاڑنے کا انا ہزارے کا اعلان کہیں کانگریس پر بھاری نہ پڑ جائے ۔اس لئے پارٹی ہائی کمان نے پردیش کانگریس کو اس کے لئے وسیع حکمت عملی بنانے کی ہدایت دی ہے۔ ذرائع کے مطابق راہل گاندھی زبردست جن ابھیان کے ذریعے انا کو کڑا جواب دے سکتے ہیں۔ ادھر سماج وادی پارٹی کرانتی رتھ یاترا منگلوار کو سائیکل ریلی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ سپا کے پردیش پردھان اکھلیش یادو کی رہنمائی میں کانپور سے اناؤ کے درمیان سائیکل ریلی نکالی گئی ۔اناؤ میں ریلی کو خطاب کرتے ہوئے سپا کے پردیش پردھان اکھلیش یادو نے کہا بسپا کے عہد کے ساڑھے چار سالوں میں عام جنتا چاروں طرف سے پسی ہے۔ جنتا کا ہر طبقہ بدانتظامی ، کرپشن سے پریشان ہے اور انہی سے نجات دلانے کیلئے ہی سماج وادی کرانتی رتھ چلا ہے۔ رتھ یاتراؤں کے سلسلے میں بھاجپا بھی پیچھے نہیں ہے۔ بھاجپا کے ایک ساتھ تین رتھ چلیں گے۔ اڈوانی جی کا رتھ ، راجناتھ سنگھ کا اور کلراج مشرا کا رتھ۔ یوپی میں اسمبلی چناؤ کے پیش نظر13 اکتوبر کو شروع ہو رہی راجناتھ و کلراج کی جن سوابھیمان یاترائیں ایودھیا میں ہی ختم ہوں گی۔ راجناتھ سنگھ اور کلراج مشرا جمعرات سے یاترا پر نکلیں گے۔ راجناتھ سنگھ متھرا میں دین دیال اپادھیائے کے جنم استھان سے یاترا شروع کریں گے۔ اس دوران یاترائیں62 ضلعوں کے تحت 237 اسمبلی حلقوں سے ہوکر گذرے گی اور تقریباً پانچ ہزار کلو میٹر کی دوری طے کریں گی۔ ان تیاروں کو لیکر لگتا ہے مختلف پارٹیوں نے اترپردیش میں اپنی چناوی مہم کا بگل بجا دیا ہے۔
 Anil Narendra, Daily Pratap, Mayawati, State Elections, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟