آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ ہیرو یا ولین


Published On 9th October 2011
انل نریندر
گجرات کے آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ پچھلے کچھ دنوں سے بحث کے موضوع بنے ہوئے ہیں۔گجرات کے یہ متنازعہ پولیس افسر جو آج کل معطل ہے دراصل ایک ہیرو ہے یا ایک ولین ۔ کانگریس کی نظروں میں تووہ ہیرو ہے سنجیو بھٹ کانگریس کے پسندیدہ بنتے جارہے ہیں۔ کانگریس کاایک طبقہ یہاں تک کہنے لگاہے کہ سنجیو بھٹ کی گرفتاری مودی حکومت کے زوال کی شروعات مانی جاسکتی ہے۔ اس طبقہ کاکہناہے کہ بدلے کے جذبہ سے بھٹ کے خلاف کی جارہی انتقامی کارروائی مودی حکومت کو بھاری پڑے گی۔ دراصل نریندرمودی کانگریس کی آنکھ میں کانٹا بنے ہوئے ہیں اور کانگریس کو ہمیشہ کوئی ایسا اشو ضرور چاہئے ہوتا ہے جس سے وہ مودی پر حملہ کرسکیں۔ کبھی مودی کے اپواس میں ایڈوانی سمیت دوسرے بڑے بھاجپا نیتاؤں کی غیرموجودگی کو ہوا دی جاتی ہے تو کبھی ایڈوانی کی گجرات سے اپنی یاترا شروع نہ کرنے کو اشو بنایا جاتا ہے۔ وزیراعظم کے عہدے کی دعوی داری کو لے کر بھاجپا میں جاری گھمسان لڑائی کوا چھالا جاتا ہے اب سنجیو بھٹ معاملے کو طول دیاجارہا ہے ۔ کہاں جارہا ہے کہ مودی حکومت کے بدلے کے جذبے سے کام کررہی ہے اور سنجیو بھٹ کو اس لئے نشانہ بنایاجارہا ہے کیونکہ وہ مودی کے خلاف کھل کر الزام لگارہے ہیں۔ بھٹ کی اہلیہ کے وزیرداخلہ پی چدمبرم کو ایک خط لکھ کرکہاہے کہ گجرات پولیس ان کے شوہر کے ساتھ دہشت گردوں کے ساتھ برتاؤ کررہی ہے۔ اپنے خط میں انہوں نے ریاستی حکومت پر یہ بھی الزام لگایا ہے کہ وہ بھٹ کی ضمانت نہ ملنے پانے کے لئے طر ح طرح کے ہتھکنڈے اپنارہی ہے کچھ دن پہلے بھٹ کی بیوی نے شویتا نے چدمبرم کو ایک اور خط لکھا تھا جس میں اپنے شوہر کی جان کو خطرہ بتایا تھا۔
سوال یہ ہے کہ سنجیو بھٹ کیا ایک وفادار ایمان دار اور صاف ستھری ساکھ کے افسر ہے جنہیں مودی سرکار جان بوجھ کر نشانہ بنارہی ہے اور بدلہ لے رہی ہے کیونکہ انہوں نے مودی کے خلاف مہم چھیڑی ہوئی ہے یا پھر وہ ایک داغ دار افسر ہے جو اپنی سرگرمیوں کے پردہ فاش ہونے سے اس لئے حملہ کررہے ہیں تاکہ ان کے خلاف لگے الزامات سے بچا سکے۔ سنجیو بھٹ کے پولیس ریکارڈ پر اگر ہم نظر ڈالے تو پائیں گے ان پر وقتا فوقتا سنگین الزام لگتے رہے ہیں 30 اکتوبر 1990 جام نگر ضلع کے جمود پور تعلقہ میں ایک فرقہ وارانہ فساد ہوا اس میں 133 لوگوں کو گرفتارکیا گیا۔ وشنو ہندو پریشدکے پریم بربھو داس ویش نانی پکڑے جانے کے 11دن بعد پولیس حراست میں مرگئے۔ کیونکہ پولیس ان کی ضرورت سے زیادہ پٹائی کردی تھی۔ ان کے بڑے بھائی امرت لال ویش نانی نے حراست میں موت سے متعلق جو مقدمہ کیا اس میں وہ اس وقت کے بنیادی ملزم ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ سنجیو بھٹ کوبنایا گیا تھا۔ جام نگر کے اس وقت کے ایڈیشنل سیشن جج این ٹی سولنکی نے بھٹ کے خلاف ایک گرفتاری وارنٹ جاری کیا تھا۔
بھٹ کے خلاف گجرات سی آئی ڈی نے سی آر پی سی کی دفعہ (9) کے تحت مقدمہ چلانے کے لئے باقاعدہ ریاستی حکومت سے اجازت مانگی تھی لیکن 1995میں مودی حکومت نے عدالت میں بھٹ کابچاؤ کیا عدالت نے یہ کیس بند کرنے کی حکومت کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ معاملہ چلانے لائق ہے اس لئے اسے بند نہیں کیاجاسکتا ہے لیکن مودی سرکارنے 1996 کی اس عرضی کو واپس لے لیا۔ اب بھی عدالتی کارروائی بھٹ کے خلاف جاری ہے سنجیو بھٹ ایک اور داغی چہرہ ہے 1995 میں وہ احمد آباد ضلع پولیس کے ایس پی تھے وہیں ایک سیشن جج آر کے جین تھے ان کی بہن کے ایک کرایہ دار تھے جن کے خلاف مقدمہ چل رہاتھا۔ لیکن کرایہ دار مقدمہ جیت گئے اور گھر خالی کرانے کے لئے سبھی قانونی راستے بند ہوگئے۔ جسٹس جین نے سنجیو بھٹ سے پھر سے گھر کسی بھی طریقے سے خالی کروانے کی اپیل کی۔ بھٹ نے کرایہ دار کوبلایا اور گھر خالی کرنے کو کہا اس نے کہاکہ اگر اس نے گھر خالی نہیں کیاتو اسے نتیجہ بھگتنے ہوں گے پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سنجیو بھٹ نے کرایہ دار کے گھر پر منشیات رکھوا کر اسے گرفتار کروادیا او رگرفتار ہوتے ہی زبردستی گھر خالی کرالیا بعد میں یہ ضلع جج کی عدالت میں کرایہ دار نے دعوی پیش کیا تو اس میں سنجیو بھٹ کو پارٹی بنایا گیا۔سنجیو بھٹ کے خلاف ایک لاکھ پچاس ہزار کا جرمانہ لگا جس کی ادائیگی آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ ریاستی حکومت نے کی اور وہ پیسہ ان کی تنخواہ قسطوں میں کٹتا رہا۔ اس معطل آئی پی ایس افسر کی مودی سرکار سے دشمنی اور اسکے مخالفوں سے سانٹھ کانٹھ پرانی ہے ایسی کئی مثالیں ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کانگریس سنجیو بھٹ کو مودی سرکار اور وہ خود وزیراعلی کے خلاف اکساتی رہی ہے اور اکساتی رہے ہیں سنجیو بھٹ کاریکارڈ عدالتوں کے سامنے ہے اور ہوسکتاہے کہ اگلی اسمبلی چناؤ وہ امیدوار بنے اور اب آپ خودفیصلہ کرلیں۔ سنجیو بھٹ ایک ایماندار اور صاف ستھری ساکھ کے شخص ہے جسے مودی سرکار جان بوجھ کر نشانہ بنارہے ہیں یا پھر وہ کانگریسی شطرنجی چال میں ایک مہرہ بنے ہوئے ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Gujarat, L K Advani, Narender Modi, P. Chidambaram, Sajeev Bhatt, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟