حصار کا زمینی چناؤ طے کرے گا ہریانہ کی آئندہ تصویر



Published On 1st October 2011
انل نریندر
حصار لوک سبھا حلقے میں نامزدگی کا کام پورا ہونے کے ساتھ ہی یہاں چناؤ سبھی متعلقہ پارٹیوں کے لئے عزت کا سوال بن گیا ہے۔ یہ ضمنی چناؤ حکمراں کانگریس، اپوزیشن پارٹی انڈین نیشنل لوک دل کے وقار اور اس علاقے میں گھرا دبدبہ رکھنے والی ہریانہ جن ہت کانگریس کے لئے کچھ حد تک اپنے وجود کی لڑائی بن گیا ہے۔ چناؤ مہم کے آغاز میں کانگریس امیدوار سابق مرکزی وزیر جے پرکاش کے پچھڑ جانے سے اب آگے کی چناؤ مہم کی کمان خود وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے رفیق خاص سابق مرکزی وزیر ونود شرما کو سونپ دی ہے۔ اس ضمنی چناؤ میں لڑائی دو جاٹوں کانگریس اور لوک دل کے امیدوار و سابق وزیر اعلی اوم پرکاش چوٹالہ کے ممبر اسمبلی بیٹے اجے چوٹالہ کے علاوہ سابق وزیر اعلی بھجن لال کے بیٹے کلدیپ بشنوئی کے درمیان ہے۔ کلدیپ بشنوئی کے حق میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس علاقے میں ان کے خاندان کا زبردست سیاسی دبدبہ ہے۔ ان کے والد نے یہاں سے 9 چناؤ جیتے۔ خود اپنے والد کے آبائی اسمبلی حلقے آدم پور سے ریکارڈ ووٹوں سے جیتے ہیں۔ ہریانہ جن ہت کانگریس کی ساری امید اسی بات پر ٹکی ہے کہ علاقے میں جہاں جاٹوں کا زور ہے وہاں ووٹ دو حصوں میں بٹے گا۔ وہیں غیر جاٹ ووٹ یکمشت ان کو پڑے گا۔ رہی سہی کثر بھجن لال سے وابستہ کٹر جاٹ ووٹ پوری کردیں گے۔
بشنوئی کے حق میں ان کے والد کی موت کے بعد سے پیدا ہمدردی کی لہر بھی ہے۔ چودھری بھجن لال کے دیہانت کے سبب یہاں ضمنی چناؤ ہورہا ہے لیکن سبھی امیدواروں کو حقیقت میں ذات پات کا بونڈر ستا رہا ہے۔ سرکردہ جاٹ امیدواروں کے میدان میں ہونے سے ان کا ووٹ لینے کی دوڑ تو ہے ہی لیکن یہاں دوسری برادری کے ووٹروں کا رخ اور زیادہ اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تینوں بڑے امیدوار ذات پات کے تجزیوں کو بٹھانے میں لگے ہیں۔
حصار میں کل ووٹ 12.50 لاکھ ہیں ان میں4.40 لاکھ جاٹ ہیں۔2.25 لاکھ دلت۔ 1 لاکھ پنجابی۔ 80 ہزار برہمن۔ 50 ہزار ویشیہ اور اتنے ہی کمہار ہیں۔ بشنوئیوں کے ووٹوں کی تعداد40 ہزار اور 30 ہزار اہیر برادری کے ہیں اور25 ہزار گوجر ہیں۔ پولنگ13 اکتوبر کو ہونی ہے۔ یہ چناؤ دراصل کلدیپ بشنوئی اور اجے چوٹالہ کے مستقبل کی سیاست کیلئے اہم ہے وہیں انڈین نیشنل لوک دل اور ہریانہ جن ہت کانگریس کے درمیان چودھراہٹ یا دبدبے کی لڑائی بھی ہے۔ ساتھ ہی کانگریس امیدوار جے پرکاش بروالا عرف جے پی کے ساتھ ساتھ ہریانہ حکومت کا وقار داؤ پر لگا ہے۔ تینوں ہی خیموں کے نیتا جہاں چناؤ مہم میں پوری طاقت جھونک رہے ہیں وہیں ذات پات کے تجزیوں کو بٹھانے میں بھی پورا دماغ لگا رہے ہیں۔ اس ضمنی چناؤ سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ ریاست میں ہوا کس طرف بہہ رہی ہے۔ اس نقتہ نظر سے وزیراعلی بھوپندر سنگھ ہڈ اکا وقار بھی اس چناؤ سے جڑا ہوا ہے۔ سیاسی واپسی کی امید پال رہی انڈین نیشنل لوک دل اگر چناؤ جیتتی ہے تو وہ اگلے اسمبلی چناؤ میں زیادہ مضبوطی سے اترے گی۔ کل ملاکر یہ انتہائی دلچسپ سہ رخی چناؤ مقابلہ ہے۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Haryana, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟