اب کیا ہوگا آگے: نظریں سپریم کورٹ پر لگیں



Published On 28th September 2011
انل نریندر
دیش کے لئے کتنے دکھ کی بات ہے کہ امریکہ میں وزیراعظم اور وزیر مالیات سے ٹو جی گھوٹالے پر سوال پوچھے جارہے تھے ۔ ساری دنیا میں گھوٹالوں کی اس حکومت نے پورے دیش کی عزت مٹی میں ملا دی ہے۔ پتہ نہیں دنیا بھارت کے بارے میں کیا سوچتی ہوگی؟ ادھر دیش میں اس حکومت کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ٹوجی گھوٹالے میں روز نئی پرتیں کھل رہی ہیں جیسے جیسے نئے نئے معاملے سامنے آرہے ہیں پتہ چل رہا ہے کہ اس گھوٹالے کی اوپر سے نیچے تک سب کو خبر تھی لیکن کسی نے بھی اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ بیشک وزیر اعظم ، وزیر خزانہ بھلے ہی خود گھوٹالے میں شامل نہ رہے ہوں لیکن اس سے تو اب وہ انکار نہیں کرسکتے کہ سب کچھ ان کی جانکاری میں اور کچھ حد تک ان کی رضا مندی سے ہوا ، بیشک وزیر اعظم اس وقت کے وزیر خزانہ کو کلین چٹ دے رہے ہوں اور کہہ رہے ہوں کہ انہیں وزیر داخلہ پر پورا بھروسہ ہے لیکن اس سے اب تک بات بننے والی نہیں۔ٹوجی گھوٹالے پر پوری طرح سے گھر چکی حکومت کے سنکٹ موچکوں کے قدم اب ختم ہونے لگے ہیں۔ سرکار کی سینئر لیڈر شپ کو اب اس گھوٹالے کے جال سے بچانے کیلئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ سابق وزیر مواصلات اے راجہ کے فیصلے سے دیش کے خزانے کو کسی طرح کا نقصان نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ ہفتے عدالت کے سامنے پیش ٹی آر اے آئی کی رپورٹ اسی کوشش کا حصہ تھی جو اوندھے منہ گر پڑی۔ گھوٹالے کی جانچ کررہی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کررہی ہے۔ راجہ کے فیصلوں میں سرکار کی سینئر لیڈر شپ کی رضامندی کو ثابت کرنے والے تمام دستاویزی ثبوت دیش اور عدالت کے سامنے ہیں۔اے راجہ کے فیصلوں سے جو محصول کو نقصان ہوا اس کے بارے میں پہلے اگر قانونی طور پرثابت ہوجاتا تو پھر وزیر اعظم اور اس وقت کے وزیر خزانہ اس نقصان کی درپردہ ذمہ داری سے بچ سکیں۔ لائسنس لینے والی ایک کمپنی ایئر ٹیل کی ایک چٹھی سرکار کے لئے مصیبت بنے گی۔ وزیر اعظم کو معلوم تھا کہ کمپنیاں ٹوجی اسپیکٹرم کی اونچی قیمت دینے کو تیار تھیں۔ نومبر 2007 میں سیدھی منموہن سنگھ کو لکھی چٹھی میں ایئرٹیل نے اسپیکٹرم کے لئے 6 ہزار کروڑ روپے دینے کی پیشکش کی تھی۔ کمپنی نے بعد میں اسے بڑھا کر13752 کروڑ روپے تک کردیا تھا۔ بازار میں ان اشاروں کے باوجود راجہ نے اسپیکٹرم کو کم قیمت پر فروخت کردیا اور پی ایم او اس فیصلے میں راجہ کے ساتھ کھڑا رہا۔ اسپیکٹرم میں کل کتنا خسارہ ہوا یا گھوٹالہ ہوا اس نقصان کے اندازہ میں کیگ نے ایئر ٹیل کی چٹھی میں مجوزہ قیمت کو ہی اہمیت اشو بنایا ہے۔ راجہ کے فیصلے سے وزیر اعظم اور اس وقت کے وزیر خزانہ کی بے توجہی کی دلیل سامنے آگئی۔ راجہ کے فیصلوں سے بدعنوانی تو صاف ہے البتہ اس فیصلے سے محصول کو نقصان کی دلیل ابھی تنازعات میں ہے۔ کیگ 1 لاکھ76 ہزار کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ لگا چکی ہے جس کو سرکار نے مسترد کردیا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں تازہ جانکاری کے بعد یہ ثابت کرنے کی آخری کوشش ہوگی کہ 2001 کی قیمتوں پر2008 میں اسپیکٹرم بیچنے سے خزانے کو کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ یہ ہی آخری راستہ ہے جس سے بدعنوانی کا ٹھیکرا اے راجہ کے سر پھوٹے گا اور سرکار کی لیڈر شپ دیش کا نقصان کرنے کے الزام سے بچ سکے گی۔ ویسے سی بی آئی نے اے راجہ پر کرپشن کا جو مقدمہ چلایا اس میں یہ درج ہے کہ وزیر مواصلات کے فیصلوں سے دیش کو قریب 30 ہزار کروڑروپے کا نقصان ہوا۔ سی بی آئی کو سابق وزیر مواصلات یا بے ضابطگی پر مقدمے کے لئے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ راجہ کے فیصلے سے خزانے کو بھاری چپت لگی ہے۔ اب سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ آج وزیر داخلہ پی چدمبرم کی اسپیکٹرم میں کردار کی جانچ کو لیکر کیا فیصلہ لیتی ہے۔ یوپی اے اور کانگریس ایک ناگزیں بحران میں پھنس گئی ہیں۔ جس کا فی الحال توکوئی توڑ نہیں نکل پارہا ہے۔ کانگریس صرف اس بات سے فکر مند نہیں چدمبرم پر حملہ کیا جارہا ہے بلکہ اس کی اصلی پریشانی بھاجپا کی وزیر اعظم کو لپیٹنے کی اسکیم سے ہے۔ اگر بھاجپا ایک بار پھر چدمبرم کے خلاف جانچ شروع کرانے میں کامیاب ہوگئی تو اس جانچ کی آنچ اپنے آپ وزیر اعظم تک پہنچ جائے گی۔منگلوارکو سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت ہوئی ہے۔ لیکن تازہ اطلاع کے مطابق یہ معاملہ آج تک یعنی بدھوار تک کے لئے ملتوی ہوگیا ہے۔ دیکھیں عدالت میں آج کیا ہوتا ہے؟
2G, A Raja, Anil Narendra, CAG, Corruption, Daily Pratap, Manmohan Singh, P. Chidambaram, Pranab Mukherjee, Prime Minister, Scams, Supreme Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟