پاکستان کی امریکہ کو دھمکی و چیلنج



Published On 27th September 2011
انل نریندر
 پاکستان اور امریکہ کے درمیان تلخی بڑھتی جارہی ہے اور اب تک جاری زبانی جنگ اب سفارتی رشتوں میں دراڑ کی شکل میں سامنے آنے لگی ہے۔ اقوام متحدہ میں شرکت کرنے آئیں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ امریکہ پاکستان یا پاکستانی عوام کو الگ تھلگ کرنے کا خطرہ نہیں اٹھا سکتا۔ پاک وزیر خارجہ کے مطابق اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ ربانی کا یہ بیان امریکہ کے اعلی فوجی افسر ایڈمرل مائک مولن کے اس الزام کے بعد آیا جس میں انہوں نے گذشتہ ہفتے کابل میں امریکی سفارتخانے پر ہوئے حملے کے پیچھے آئی ایس آئی کو ذمہ دار مانا تھا۔ مائک مولن کا کہنا ہے کہ حملے کے پیچھے حقانی نیٹورک کو آئی ایس آئی کی شہ حاصل ہے۔ ویسے امریکہ طویل عرصے سے مانتا رہا ہے کہ افغانستان میں اپنی پیٹ مضبوط کرنے کے لئے پاکستانی حقانی نیٹ ورک کا سہارا لے رہا ہے۔ افغانستان سے 2014 تک فوجیوں کی واپسی اور وہاں ایک پائیدار اور جمہوری حکومت کے قیام کے امریکی خواب میں حقانی نیٹ ورک سب سے بڑا روڑا بنا ہوا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان وسیع اور ٹرینگ یافتہ نیٹ ورک کے خاتمے میں امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اسے اپنے سب سے مضبوط ساتھی پاکستان کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملنے والی ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان اپنی طالبان اور اپنی سیاسی حکمت عملی کے وراثت مانتے ہیں جو امریکہ کے افغانستان سے ہٹنے کے بعد وہاں پاکستانی مفادات کی حفاظت کرے گا۔ امریکہ کی مشکل یہ ہے کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود القاعدہ کو اس نے جس طرح سے نیست و نابود کیا تھا ویسے ہی حقانی نیٹ ورک کو وہ نہیں کرسکا۔ القاعدہ سرغنہ جہاں ڈرون حملوں سے اپنی جان بچا رہے ہیں وہیں حقانی نیٹ ورک ایک بعد ایک تابڑ توڑ حملوں کو انجام دے رہا ہے۔ ایسے میں آخر کار امریکہ اب جلال الدین و سراج الدین حقانی کو اسامہ بن لادن و القاعدہ جتنا ہی خطرناک ماننے لگا ہے۔ امریکہ حقانی نیٹ ورک کا ہر قیمت پر صفایا چاہتا ہے۔ دراصل اوبامہ انتظامیہ کابل میں امریکی سفارتخانے پر ہوئے دہشت گردانہ حملے سے بوکھلا گیا ہے۔ 12 ستمبر کو اس حملے میں جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کا ہاتھ تھا۔ اس حملے میں چار پولیس ملازمین اور چار شہری مارے گئے تھے۔19 گھنٹے تک چلی اس لڑائی میں 11 آتنک وادیوں کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ اس سے دو دن پہلے ہی حقانی کے آتنک وادیوں نے ورداگ ریاست میں واقع نیٹو کے ٹھکانے پر حملے کیا تھا جن میں چار افغانی شہری مارے گئے تھے اور 77 امریکی زخمی ہوئے تھے۔
آخر کار امریکہ کو وہ سچائی سمجھ میں آنے لگی ہے کہ پاکستان ان آتنکی تنظیموں سے نہ صرف ملا ہوا ہے بلکہ ان کی ہر طرح سے مدد کرتا رہتا ہے انہیں سرپردستی دیتا ہے۔ بھارت نے یہ بات اجمریکہ کو کئی بار سمجھانے کی کوشش کی لیکن امریکہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجام بنا رہا یا شاید اس نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ کیونکہ پاک اسپانسر آتنک واد کا شکار بھارت تھا۔ اب جب خود امریکہ اس کا نشانہ بن رہا ہے، امریکہ کو کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا ہے۔ حالانکہ بھارت کے ساتھ ساتھ کئی امریکی ماہرین بھی بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان نے دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کو اپنی قومی پالیسی کا حصہ بنا لیا ہے لیکن امریکی سینئر لیڈر شپ اسی جان بوجھ کر نظر انداز کرتی رہی ہے۔ امریکہ کی مشکل اور کمزوری کا پاکستان پورا فائدہ اٹھا رہا ہے اور اٹھائے گا۔ انہیں معلوم ہے کہ امریکہ 2014 تک افغانستان سے ہٹنا چاہتا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے ہٹنے کے بعد بھی اس کی بالادستی قائم رہے۔ پاکستان ہمیشہ امریکہ کو بلیک میل کرتا رہا ہے اور اب بھی کررہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ سے لیکر وزیر اعظم، صدر تک یہ ظاہر کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام آباد سے زیادہ واشنگٹن کو ان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ ان بیانات میں ایک طرح کی دھمکی بھی چھپی ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کی اس چال بازی کو بھانپ پاتا ہے یا نہیں اور اس کے سلسلے میں اپنی حکمت عملی میں کوئی ٹھوس تبدیلی کرتا ہے یانہیں؟ پاکستان کے سلسلے میں امریکی امکانی پالیسی بھلے ہی کچھ بھی ہو، اوبامہ انتظامیہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اور طویل عرصے تک بغیر اپنے مفادات سے سمجھوتہ کئے پاکستان سے سب سے مضبوط اتحادی ماننے والی پالیسی پر چل نہیں سکتا۔ امریکہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی پوری مدد اور حمایت چین بھی کررہا ہے۔ معاملہ صرف امریکہ۔ پاکستان کا نہیں رہ جاتا، چین کے بھی بیچ میں آنے سے سارے تجزیئے بدل جاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ پاکستان سے زیادہ آج امریکہ مشکل میں ہیں۔ دیکھیں آگے کیا ہوتاہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Vir Arjun, Haqqani Network, Afghanistan, Pakistan, USA, America, Taliban,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟