اتراکھنڈ کے نئے وزیر اعلیکتنے کامیاب ہوں گے؟



Published On 20th September 2011
انل نریندر
بدعنوانی کے الزامات سے گھری رمیش پوکھریال نشنک حکومت کو بدلنا بھاجپا ہائی کمان کی مجبوری ہوگئی تھی۔ قریب سوا دو سال بعد ایک مرتبہ جنرل بھون چندر کھنڈوری نے اتراکھنڈ کی کمان سنبھال لی ہے۔ چھوٹی سی پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں سیاست کی لڑائی اور سیاسی اتھل پتھل میں اپنے حریفوں کو چت کرتے ہوئے کھنڈوری ریاست میں سب سے طاقتور لیڈر کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ وزیر اعلی کی دوسری پاری سے بھاجپا ہائی کمان کو بہت سی امیدیں ہیں۔ پہلی پاری میں اپنی وزارتی ساتھی رمیش پوکھریال نشنک کو وزیراعلی بنوانے اوراب انہیں ہٹواکر وزیر اعلی بننے کے لئے ہائی کمان پر دباؤ بنانے میں کامیاب ہوئے کھنڈوری کی سیاسی صلاحیتوں کو دونوں پارٹی کے اندر اور باہر سبھی مانتے ہیں۔ کوئی پانچ ماہ بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں جس معجزے کی پارٹی ان سے امید لگائے ہوئے ہیں اس کے پیش نظر جنرل صاحب کے لئے یہ ذمہ داری سخت اگنی پریکشا ثابت ہوگی۔ دیش میں کرپشن مخالف سماں بھلے ہی کانگریس مخالف لگ رہا ہو لیکن اتراکھنڈ سے ملے اشاروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ فوج سے ریٹائر ہوئے میجر جنرل بھون چندر کھنڈوری کے سامنے سب سے بڑی چنوتی اپنی صاف ستھری ساکھ اور انتظامی صلاحیت کا صحیح استعمال کرنے کی ہوگی۔ کھنڈوری اکھڑ پسند سیاستداں ہیں۔ اور یہ اکڑ انہیں فوجی ڈسپلن سے ملی ہے۔888 دن پہلے جب وہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی کے عہدے سے معزول ہوئے تھے تب ان پر الزام تھا کہ ان کی اکڑ کے سبب ان کا عوام سے تعلق اچھا نہیں رہا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 2009 کے لوک سبھا چناؤمیں اتراکھنڈ پر راج کرنے والی بی جے پی کو ایک سیٹ بھی نہیں ملی اور اس کے بعد ان پر گاج گرنا طے تھا۔ اس لئے ان کی چھٹی کردی گئی۔ فوج سے لیکر سیاست تک کھنڈوری نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں لیکن وہ کبھی ہارے نہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ کامیاب ہوکر اقتدار کی اونچائیوں پر پہنچے ہیں۔ ان کے برتاؤ میں سیاست کی چالبازی نہیں ہے۔ وہ وقت کے حساب سے پروگرام میں یقین رکھتے ہیں اور ان کا مزاج کڑک ہے لیکن ان کے قریبی کہتے ہیں ان کی شخصیت ناریل کی طرح ہے ۔وہ ابن الوقت سیاستدانوں کو گردانتے نہیں۔سیاست میں بھی وہ اپنے اس رویئے سے باز نہیں آتے۔ بھلے ہی اس کے کئی فائدے یا نقصان ہوں۔ واجپئی سرکار میں وہ کامیاب وزیر ثابت ہوئے انہوں نے سورگیہ چتربھج سڑک پروجیکٹ کو بنوایا ۔ محکمہ ان کا کاجل کی کوٹھری والا تھا باوجود اس کے وہ اس کی سیاہی سے بچتے رہے۔ واجپئی نے ان کے کام سے خوش ہوکر 2003ء میں انہیں وزیر بنا دیا تھا۔
شری کھنڈوری کے لئے سب سے بڑی چنوتی یہ ہوگی کہ وہ اتنے کم وقت میں ایسا کیا کریں کہ حکمراں مخالف لہر کا رخ موڑ سکیں اور پنپ رہی ناراضگی کو دور کرکے پارٹی کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کرپائیں۔جن کھنڈوری کو ریاست میں لوک سبھا چناؤ کی ہار کیلئے ذمہ دار مان کر ہٹا دیا گیا تھا اب سوا دو سال بعد ایسا کیا ہوا کہ پارٹی کو76 سالہ سابق وزیر اعلی پر چار پانچ مہینے پہلے ہی بازی پلٹ دینے کا بھروسہ ہوگیا؟ خیال کیا جاتا ہے کرپشن جیسے موجودہ وقت میں اہم مسئلے پر پارٹی ان کی ساکھ کو بھنانا چاہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کھنڈوری کی قیادت میں اتراکھنڈ میں ہونے والے چناؤ میں پارٹی کو کرپشن کو چناوی اشو بنانے میں جو سہولیت ہوگی وہ بدعنوانی کے الزامات سے گھرے نشنک کی قیادت میں چناؤلڑنے میں شاید نہ ہوتی۔ اعلی کمان کی امیدوں کے مطابق نئے وزیر اعلی نے کرپشن کے مسئلے کو ترجیح دینے کے اشارے اپنی پہلی کیبنٹ کی میٹنگ میں دے دئے تھے۔ انہوں نے اپنی کیبنٹ کے سبھی ساتھیوں اور انڈین پولیس سروس کے سبھی افسران سمیت دیگر کچھ افسران کو15 اکتوبر تک اپنی پراپرٹی کے بارے میں تفصیلات سرکار کے پاس جمع کرانے کے احکامات دئے ہیں۔آج بھاجپا کی اتراکھنڈ یونٹ میں زبردست ناراضگی ہے۔ تقریباً بغاوت کی صورتحال ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ شری کھنڈوری ایک طرف تو اپنی پارٹی کو کتناساتھ لے کر چلتے ہیں وہیں دوسری طرف اتراکھنڈ کے انتظامی و قانونی نظام کو چست درست کرنے کے لئے سخت قدم اٹھانے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔ نشنک کے دور میں اپوزیشن پارٹی کانگریس نے اپنے آپ کو منظم کیا ہے اور انہیں لگ رہا ہے کہ آنے والے اسمبلی چناؤ میں ان کی پارٹی بازی مار لے گی۔ دیکھنا اب یہ ہوگا کہ بھاجپا کا اتراکھنڈ میں صرف چہرہ بدلنے سے کام ہوجائے گا یا نہیں؟
Anil Narendra, BC Khanduri, BJP, Corruption, Daily Pratap, Nishank, Uttara Khand, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟