اگر آپ 25 روپے روز خرچ کرتے ہیں تو آپ غریب نہیں ہیں



Published On 23rd September 2011
انل نریندر
منگلوار کو بھارت کی پلاننگ کمیشن نے ایک حلف نامہ دائر کیا ہے۔ مجھے اس کو پڑھ کر دکھ بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔ پتہ نہیں یہ پلاننگ کمیشن والے کون سی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ اگر ان کی سوچ اس طرح کی ہی ہے تو اوپر والا ہی بچائے اس دیش کو۔ حلف نامے میں پلاننگ کمیشن فرماتا ہے کہ غریبی ریکھا سے نیچے (BPL) کا درجہ پانے کے لئے ایک عام شرط یہ ہے کہ ایک پریوار کی کم سے کم انکم 125 روپے روزانہ ہو۔عام طور پر ایک پریوار میں اوسطاً پانچ لوگ مانے جاتے ہیں اس طرح فی شخص کی روزانہ انکم25 روپے ہے۔ غور طلب ہے کہ زیادہ تر سرکاری یوجناؤں کا فائدہ صرف غریبی ریکھا سے نیچے کے لوگ ہی اٹھا سکتے ہیں۔ کمیشن نے یہ حلف نامہ عدالت کے کئی بار کہنے کے بعد دائر کیا ہے۔ کمیشن کے مطابق پردھان منتری دفتر بھی اس حلف نامے پر غور کرچکا ہے۔ حلف نامہ سریش تندولکر سمیتی کی رپورٹ پر منحصر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ غریبی کھانا، تعلیم اور صحت پر فی شخص خرچ کے حقیقی آنکڑے پر زندگی گذارنے پر منحصر ہے۔ پلاننگ کمیشن کے مطابق گرامین حلقے میں 26 روپے اور شہری حلقے میں 32 روپے کمانے والا اب غریب نہیں مانا جائے گا اور اتنے روپے میں صرف کھانے کا خرچہ نہیں بلکہ کرایہ، کپڑا، صحت، تعلیم،تفریح وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔یعنی مہینے میں شہروں میں965 روپے اور گاؤں میں 781 روپے خرچ کرنے والا سرکار کی نظر میں غریب نہیں ہے۔ سرکار اسے اپنی فلاحی اسکیموں کا فائدہ نہیں دے گی۔ ظاہرہے کہ غریبی کے نئے پیمانے کو مضحکہ خیز کہا جارہا ہے لیکن ان سب سے بے فکر عام آدمی کی اس یوپی اے سرکار کے پلاننگ کمیشن کے اس نئے پیمانے پر غریبی ریکھا سے اوپر رہنے والا شہری اناج پر پانچ روپے، سبزیوں پر 1.80 پیسے، دال پر 1 روپیہ اور دودھ پر 2.30 پیسے خرچ کرتا ہے۔ تیل اور رسوئی گیس ملا کر مہینے میں112 روپے خرچ کرنے والا بھی غریب نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی میں پانچ روپے میں آپ 136 گرام چاول یا 166 گرام گیہوں ہی خرید سکتے ہیں۔ 1.80 پیسے میں 180 گرام آلو یا 90 گرام پیاز،90 گرام ٹماٹر یا پھر 180 گرام لوکی خرید سکتے ہیں۔ ایسے ہی 1 روپے میں 20 گرام دال ہی مل پائے گی۔ڈھائی روپے سے کم میں دودھ ملے گا صرف85 ملی لیٹر اور 112 روپے میں آپ ڈیڑھ کلو رسوئی گیس سے زیادہ نہیں خرید سکتے۔ ظاہر ہے اتنے راشن میں ایک وقت کا بھر پیٹ کھانا بھی نہیں ہوسکتا۔
عام آدمی سرکار کے اس آنکڑے سے شاید دکھی ہولیکن حیرانی بالکل نہیں ہوئی، یہ سرکار غریب آدمی سے کتنی کٹ چکی ہے اسی حلف نامے سے پتہ چلتا ہے۔ اقتصادی ماہر پردھان منتری منموہن سنگھ ان کے سپہ سالار مونٹیک سنگھ آہلووالیہ، پرنب مکھرجی، پی چدمبرم جیسے لوگوں سے آپ کیا امید کرسکتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی کھلے بازار میں سبزی ، آٹا، دال ، چاول، تیل، دودھ، دوائی ، ڈاکٹر کی فیس، اسکول کی فیس، میٹرو یا بس کے کرائے کا پتہ کیا ہے،یا تجربہ کیا ہو تو زمینی حقیقت کا پتہ چلے۔ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اپنے کمپیوٹر میں انگریزی زبان میں گوگل پرسرچ کرکے یہ حلف نامہ تیار ہو تو ہوجاتا ہے لیکن زمینی حقیقت سے یہ کوسوں دور ہوتا ہے۔ اتنا دور کے عام آدمی کو غصہ اور دکھ ہوتا ہے۔
Anil Narendra, daily, Inflation, Manmohan Singh, Montek Singh Ahluwalia, P. Chidambaram, Planning Commission, Poverty, Pranab Mukherjee, Vir Arjun,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟