چدمبرم حکومت اور پارٹی دونوں کے لئے لائبلٹی بن گئے ہیں



Published On 24th September 2011
انل نریندر
پونے دو لاکھ کروڑ روپے کے ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں ایک اہم موڑ آگیا ہے۔ اب اس گھوٹالے کے گھیرے میں اس وقت کے وزیر مالیات اور موجودہ وزیر داخلہ پی چدمبرم آگئے ہیں۔ ان پرالزام اپوزیشن یا جانچ ایجنسی سی بی آئی نے نہیں بلکہ موجودہ وزیر پرنب مکھرجی کی جانب سے لگائے گئے ہیں۔ پرنب مکھرجی کی جانب سے25 مارچ2011 کو وزیر اعظم کے دفتر کو لکھے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر چدمبرم چاہتے تو ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالہ روک سکتے تھے لیکن انہوں نے 30 جنوری 2008 کو اے راجہ سے ملاقات میں انہیں پرانی شرحوں پر اسپیکٹرم کرنیں بیچنے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے کہا میں اب اینٹری فیس یا ریوینیو شیرینگ کی شرحوں کو ریوزٹ یعنی جائزہ نہیں لینا چاہتا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اگر چدمبرم چاہتے تو اسپیکٹرم کی پہلے آؤ اور پہلے پاؤں کی جگہ مناسب قیمت پر نیلامی کی جاسکتی تھی۔ گیارہ صفحات پر مبنی یہ خط آنے والے وقت میں چدمبرم کے لئے مصیبت کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ خط آر ٹی آئی کے تحت وویک گرگ نے حاصل کی ہے۔ جنتا پارٹی کے صدر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے یہ خط سپریم کورٹ میں جسٹس جی ایس سنگھوی اور جسٹس اے کے گانگولی کی بنچ کے سامنے دستاویز کے طور پر پیش کیا ہے۔ وزارت مالیات میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر مامور ڈاکٹر پی جی ایس راؤ نے وزیر اعظم کے دفتر میں جوائنٹ سکریٹری ونی مہاجن کو25 مارچ 2011 کو یہ خط بھیجا تھا۔ اس خط سے صاف ہے کہ پرنب مکھرجی یہ اشارہ دینا چاہ رہے ہیں کہ اگر پی چدمبرم اڑ جاتے تو شاید ٹیلی کام گھوٹالے کے چلتے دیش کو لاکھوں کروڑوں روپے کا نقصان نہ ہوتا۔ وزارت پی ایم او کو بھیجے ہوئے خط میں کہتی ہے کہ وزارت مالیات 31 دسمبر2008 تک کے لائسنس 2001 کے دام پر بیچنے کے لئے تیار ہوگئی۔
چدمبرم پر سیدھا الزام لگتا ہے کہ اے راجہ جو کچھ کررہے تھے ان کو وزیر داخلہ کی رضامندی حاصل تھی۔ یہ ہی نہیں 30 جنوری2008 کو انہوں نے اے راجہ سے میٹنگ کرکے انہیں پرانی شرحوں پر اسپیکٹرم بیچنے کی اجازت دی۔ اے راجہ بھی شروع سے یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ میں نے جو کچھ بھی کیا وہ پی ایم او اور وزارت داخلہ کی منظوری اور علم میں لاکر کیا۔ اب یہ الزام تو کچھ سرکاری دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے۔ پہلے آؤ پہلے پاؤ کی جگہ زیادہ قیمت پر اسپیکٹرم کی نیلامی کی جاسکتی تھی لیکن پی چدمبرم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ کمپنیوں کو دئے گئے یو اے ایس لائسنس کی سہولیت 5.1 سرکار کو لائسنس کی شرائط کو کسی بھی وقت بدلنے کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ یہ مفاد عامہ میں ہو یا سلامتی کے لئے ضروری ہو لیکن چدمبرم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ وزارت مالیات نے ٹیلی کام سیکٹر میں پیداوار کی تناسب فیس طے کرنے کی بات کی تھی۔ راجہ اس سے متفق نہیں تھے۔ چدمبرم نے اس کی بھی مخالفت نہیں کی۔ وزارت مالیات 4.4 میگا ہارٹس سے اوپر کی اسپیکٹرم کرنوں کو بازار کے بھاؤ بیچنا چاہتی تھی۔ راجہ نے یہ حد 6.2 میگا ہارٹس کردی۔ چدمبرم اسی پر مان گئے لیکن کسی بھی کمپنی کو6.2 میگاہارٹس سے اوپر اسپیکٹرم کرنیں نہیں دی گئیں۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ سرکار4.4 میگاہارٹس سے اوپر کی نیلامی والے موقف پر قائم رہتی اور کمپنیوں سے نئے داموں پر پیسہ وصولتی لیکن یہ بھی نہیں ہوا۔ یوپی اے کے اندر ایک طرح سے چھڑی خانہ جنگی سے وزیر اعظم کا پریشان ہونا فطری ہی ہے۔ وزیراعظم آج کل امریکہ میں کار فرماں ہیں۔ منموہن سنگھ نے پرنب مکھرجی اور چدمبرم دونوں سے فون پر بات چیت کی ہے۔ جمعرات کی شام وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک بیان جاری کر دونوں لیڈروں سے بات ہونے کی جانکاری دی۔ انہوں نے کہا میں نے وزیر اعظم کو پورے معاملے سے باآور کیا ہے کہ جب تک وہ غیر ملکی دورے سے لوٹتے ہیں میں اس موضوع پر کوئی بیان نہیں دوں گا۔ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ 27 ستمبر کو نیویارک سے بھارت واپس آئیں گے۔ ادھر وزیر خزانہ نے بھی نیویارک سے میڈیا سے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ وزیر مرکزی وزیر قانون سلمان خورشید نے کہا کہ چدمبرم پر سوال نہیں کھڑے کئے جاسکتے ہیں۔ وہ سرکار کی حمایت کے حقدار ہیں۔ مرکزی وزیر اطلاعات امبیکا سونی نے بھی سرکار میں دراڑ کے پیدا ہونے کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا جو بھی رپورٹیں آرہی ہیں ان میں سچائی نہیں ہے۔ ٹوجی اسپیکٹرم معاملے کی جانچ کرنے والی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اور بھاجپا کے سینئر لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے کہا کہ چدمبرم فوراً استعفیٰ دیں یا انہیں برخاست کیا جائے۔ سی پی ایم نے چدمبرم کے کردار کی سی بی آئی جانچ کی مانگ کی ہے۔ ادھر تاملناڈو کی وزیر اعلی جے للتا نے کہا کہ چدمبرم ٹو جی کیس میں ملوث ہیں اور یہ صاف ہوچکا ہے۔ نیویارک سے وزیر اعظم نے کہا انہیں چدمبرم پر پورا بھروسہ ہے۔ چوطرفہ پریشانیوں سے گھری یہ یوپی اے حکومت کے لئے وقت دن بدن مشکلوں بھرا ہوتا جارہا ہے کیونکہ اس مرتبہ سارے الزام ایک سرکاری دستاویز کی بنیاد پر لگ رہے ہیں۔ اس لئے اس سرکار کے لئے اس سے نکلنا آسان نہ ہوگا ۔ رہا سوال پی چدمبرم کا وہ تو اب سرکار اور کانگریس پارٹی کیلئے ایک لائبلٹی بنتے جارہے ہیں۔
2G, A Raja, Anil Narendra, Daily Pratap, Manmohan Singh, P. Chidambaram, Pranab Mukherjee, Salman Khursheed, UPA, Vir Arjun,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟