سابق افغان صدر ربانی کے قتل نے سبھی کی تشویشات بڑھائیں



Published On 24th September 2011
انل نریندر
افغانستان میں امریکہ کے ذریعے جاری قیام امن کی کوششوں کو زبردست دھکا لگا ہے۔ افغانستان کے سابق صدر برہان الدین ربانی کا ایک فدائی حملہ آور نے قتل کردیا ہے۔ اس حملہ آور نے اپنی پگڑی میں دھماکہ خیز مادہ چھپایا ہوا تھا۔ ربانی کا قتل کرنے والے حملہ آور کے اس واقعہ میں ربانی کے چار محافظ بھی مارے گئے۔71 سالہ ربانی کا قتل شورش کے حالات سے گذر رہے افغانستان میں جاری قیام امن کی کوششوں کو ایک زبردست جھٹکا مانا جارہا ہے۔ ان کے قتل کے بعد صدر حامد کرزئی اپنا دورہ امریکہ بیچ میں چھوڑ کر وطن واپس لوٹ گئے ہیں۔ کابل پولیس کے مطابق حملہ آور کو ربانی کے کابل میں واقع مکان میں شام کوبلایا گیا تھا۔ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ ایک غیر ملکی ڈپلومیٹ ہے جو طالبان کا خاص پیغام لیکر آیا ہے۔ ربانی سے گلے ملتے ہی حملہ آور نے پگڑی میں رکھے بم سے دھماکہ کردیا۔
مسٹر ربانی کے قتل سے صاف ہے کہ امریکہ کی قیادت والی نیٹو افواج کے افغانستان سے رخصت ہونے کے بعد طالبانی اور کتنی بڑی چنوتی پیدا کرسکتے ہیں۔ ربانی راجدھانی کابل کے انتہائی سکیورٹی زون میں علاقے میں رہتے تھے جہاں امریکہ کا سفارتخانہ بھی قائم ہے۔ ربانی کو حامد کرزئی سرکار نے پچھلے قریب ایک سال سے اپنی ہائی پاور امن کونسل کا سربراہ بنایا تھا۔ انہیں امن کی کوششوں میں کوئی خاص کامیابی تو نہیں ملی۔ اب ان کے قتل سے تو میل ملاپ کے رہے سہے امکانات بھی مدھم ہونے لگے ہیں۔ جس طرح طالبان نے گھر میں گھس کر ربانی کا قتل کیا تھا اسی طرح کچھ مہینے پہلے حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی ولی کرزئی کو ان کے ہی ایک ساتھی سے ملنے پر قتل کردیا گیا تھا ۔ اس کے بعد طالبانی بندوقچیوں نے ایک سابق گورنر جان محمد خاں کو مار ڈالا تھا۔ جب سے امریکہ اورمغربی ممالک کی بالا دستی والی کرزئی سرکار بنی ہے طالبان اس پر حملے کررہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک قتل سے صاف ہے کہ طالبان مصالحت کے حق میں نہیں ہے۔ طالبان کی تربیت کبھی پاکستانی مدرسے میں ہوئی تھی اور آج بھی پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا طالبان کے مختلف گروپوں پر دبدبہ ہے۔ افغانستان میں طالبانی حکومت ہونے سے پاکستان کو بھارت کے ساتھ جنگ کی صورت میں کافی مدد ملتی اس لئے پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان میں ایسی کوئی سرکار ہو جو بھارت کی دوست بنے۔ ربانی کو ہندوستان کا دوست مانا جاتا تھا۔ طالبان کو ایسا بھی کوئی شخص پسند نہیں ہے جو امریکہ، ہندوستان اور مغربی ممالک کا دوست ہو۔
مسٹر ربانی کے قتل کے ساتھ ناگزیں حالات سے گذر رہے پڑوسی ملک افغانستان کے حالات کو لیکر بھارت کی تشویشات کا بڑھنا فطری ہے۔ نئی دہلی کی تشویش افغانستان میں امن اور بحالی اعتماد کا پرچم اٹھانے والے نیتاؤں کو ٹھکانے لگانے کی کوششوں کو لیکر ہے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا کہ اس واقعے سے گہرا دھکا پہنچا ہے اور بھارت مشکل کی اس گھڑی میں افغانستان کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ کرزئی کو لکھے خط میں وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں مختلف گروپوں کے درمیان جاری امن عمل کی رہنمائی کررہے ربانی کو یاد رکھنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہی ہوگا کہ ہم ان کے کام کو آگے بڑھائیں۔ ربانی کے قتل نے امریکہ اور نیٹو فوج کی پریشانی بڑھا دی ہے۔ امریکہ کے صدر براک اوبامہ نے ربانی کے قتل پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امن عمل جاری رہے گا۔ افغانستان کے سابق صدر ربانی کا قتل کرنے والے حملہ آور کی پہچان عصمت اللہ کی شکل میں کر لی گئی ہے۔ وہ طویل عرصے سے ربانی کو قتل کرنے کے موقعے کی تلاش میں تھا۔ طالبان کے اس فدائی حملے سے ایک بات توصاف ہے کہ اگر امریکہ و نیٹو اتحادیوں کو افغانستان سے باہر نکالنا ہے تو انہیں افغانستان سے سیدھی بات چیت کرنی ہوگی لیکن مشکل یہ بھی ہے کہ طالبان کے اندر کئی گروپ ہیں اور بات کس کے ذریعے سے ہو؟ پھر آئی ایس آئی بھی ہے ان کے اپنے مفاد بھی ہیں ، وہ افغانستان میں ایسی سرکار چاہئیں گے جو پاکستان کی پٹھو بننے کو تیار ہو۔ اوبامہ کا آگے کا راستہ کانٹوں بھرا ہے لیکن پھر بھی امریکہ تو بری طرح سے پھنس گیا ہے۔ اس کے لئے ادھر کنواں تو ادھر کھائی۔
Afghanistan, America, Anil Narendra, Daily Pratap, Taliban, Vir Arjun,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟