فوجی اقتصادی ،ڈپلومیسی دباﺅ بنانے کی ضرورت ہے!
یہ لڑائی اب ہندو مسلمان کے درمیان نہیں بلکہ مذہب اور غیر مذہب کے درمیان آر ایس ایس کے صدر ڈاکٹر بھاگوت نے جموں کشمیر پہلگام میں ہوئے آتنکی حملہ پر گہری ناراضگی جتائی ہے ان کا کہنا ہے کے یہ معاملہ ایک گھناﺅنی حرکت تھا ۔،جس میں دہشت گردوں نے نہ صرف بے قصور شہریوں کو مارا بلکہ مذہب کے نام پر بھی قتل کیا ۔ہزاروں فوجیوں یا شہریوں نے کبھی بھی کسی سے ان کا مذہب نہیں پوچھا لیکن دہشت گردوں نے مذہب پوچھ کر لوگوں کا قتل کیا ۔ہندو کبھی ایسا نہیں کرے گا بھاگوت نے اس حملہ پر غصہ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کے راجہ کا فرض ہے عوام کی حفاظت کرنا اور پورا دیش متحد ہے اور جوابی کارروائی کی مانگ کر رہا ہے۔ہمارا خیال ہے کے ہمیں ایسا سخت جواب دینا چاہئے جو دہشت پرست ،پاکستان آتنکوادیوں کو قرارا جواب دے ۔مٹھی بھر آتنکوادیوں یا ان کے کیمپوں کو تباح کرنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ہمیں اس پاک اسپانسر دہشت گردی کی جڑ تک پہنچنا ہوگااور اسے تباح کرنا ہوگا۔دہشت گرد آتنکواد کی جڑ میں پاکستان کی فوج اور اس کی آئی ایس آئی ہے ہمیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی ۔اس پاک ملٹری نیٹورک کو ایسا سخت تماچہ مارنا ہوگا کے وہ آگے سے ایسے حملے کروانے سے پہلے 10 بار سوچے ۔سابق فوج کے سربراہ جنرل رائی چودھری (ریٹائرڈ )پہلگام آتنکی حملہ ہماری خفیہ کی ناکامی کے سبب ہوا اور انہوںنے اس کے لئے اعلیٰ ستح پر جواب دیہی طے کرنے کی مانگ کی ۔دیش کے فوج کے سربراہ رہے رائے چودھری نے پی ٹی آئی - بھاشا سے بات کرتے ہوئے کہا کے مجھے خفیہ ناکامی کا شبہ لگتا ہے اور کسی کو تو اس کوتاہی کےلئے جواب دینا چاہئے ۔پہلگام حملے کے پیچھے پاکستان اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا رول اور لشکر طیبہ کی معاون تنظیم و انٹلیجنس فرنٹ نے حملہ کی ذمہ داری لی ہے ۔یہ پوچھے جانے پر کے کیا پاکستان پر بھارت سرکار ڈپلومیٹک پابندی صحیح ہے تو رائے چودھری نے بتایا ڈپلومیٹک قدم اٹھانا قافی نہیں ہے اس لئے جوابی قدم اٹھانے ہوں گے ۔وہ کس شکل میں سامنے آتے ہیں ،یہ تو ہم پر منحصر کرے گا ۔صرف کھانہ پوری کے قدم کافی نہیں ہے ۔ہمیں بھی اسی طرح کی کارروائی کرنی ہوگی ۔میں اسے صرف اسی طرح دیکھتا ہوں ۔ائیر فورس کے سابق چیف رو پ رہا نے پہلگام قتل عام کے پیش نظر پاکستان نواز دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی بات کہی اور پوری و پہلگام حملوں کے بعد گئے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کے بھارت نے اس نظریہ کو ختم کردیا کے دو نیوکلیائی کفیل ملک دیش جنگ نہیں لڑ سکتے ۔انہوںنے مزید کہا کے قانونی جیسے کئی کارروائیاں و متبادل ہیں۔سب سے پہلے بھارت کو پاکستان کے تئیں الگ پالیسی اپنانی چاہئے ۔جس سے پاکستان کو دنیا میں الگ تھلگ کیا جا سکے اور دہشت گردی کے خلاف بھارت کی تشویشات کو تئیں ہمدردی رکھنے والے ملکوں کے ساتھ اتحات بنائیں تاکہ پاکستان کے خلاف کو دنیا میں مخالف رائے عامہ بن سکے ۔بھارت فوجی طور پر کافی طاقتور ملک ہے ہمیں پی او کے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج کے اہم ترین ٹھکانوں میں دہشت گردی کے کیمپوں اور نیٹورک کو تبح کرنا چاہئے حالانکہ ہمیں دیکھنا ہوگا آج پاکستان بہت کمزور ہو چکا ہے اور مالی طور پر دوالیہ بھی ہو چکا ۔افغانستان اور بلوجستان میں ان کے الگ الگ محاذ کھلے ہوئے ہیں ۔بے شق وہ گھبراہٹ میں نیوکلیائی جنگ کی گیدڑ بھبھکی دے رہا ہوں لیکن فوجی ماہرین کا کہنا ہے کے وہ ایسا نہیں کر سکتا اس نے کارگل جنگ کے دوران بھی ایسی دھمکیاں دی تھی کچھ لوگوں کو خطرہ ہے کہیں چین پاکستان کی طرف نہ آ جائے ایسا نہیں ہوگا ۔چین اوپر اوپر سے دھوڑی دھوڑی مدد کرتا رہے گا لیکن وہ بھارت سے بڑھتی تجارت کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا اور بیچ میں بھی نہیں کودے گا ۔کل ملاکر بھارت سرکار کو ٹھوس کارروائی کرنی چاہئے ۔پورے دیش کی یہ مانگ ہے پاکستان کی دہشت گردی کو مٹانے میں سب کی ایک رائے ہے ،متحد ہیں ،بس انتظار ہے فیصلہ کن قدم اٹھانے کا ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں