لکھیم پور سانحہ لاپرواہی نہیں ،سازش!

لکھیم پورکھیری معاملے میں اسپیشل تفتیشی ٹیم یعنی ایس آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد حالات بالکل پلٹ گئے ہیں ۔ایس آئی ٹی نے بڑا انکشاف کیا ہے اس کے مطابق تین اکتوبر کو مرکزی وزیر مملکت داخلہ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا نے سوچی سمجھی سازش کے تحت احتجاجی چار کسانوں کو اپنی گاڑی سے کچل کر مار ڈالا تھا ۔یہ واردات کسی لاپرواہی کی وجہ سے نہیں بلکہ منصوبہ بند طریقہ سے انجام دی گئی ۔اس کے بعد بھڑکے تشدد میں بھی چار لوگوں کی جان چلی گئی تھی ۔ایس آئی ٹی نے د ومہینہ بعد ایک ایف آئی آر کی دفعات میںبھی تبدیلی کر دی اور اسے غیر ارادتاً قتل کے بجائے قتل کا کیس مانا عدالت نے بھی اسے منظوری دے دی ہے ۔ایف آئی آر میں آشیش مشرا عرف مونو بنیادی ملزم ہیں ۔دفعات میں تبدیلی کے بعد آشیش مشرا سمیت 14ملزمان پر اب قتل کے ساتھ اقدام قتل کا بھی کیس چلے گا ۔منگل کو اجے مشرا و ساتھی ملزمان کو کورٹ میں پیش کر نئی دفعات میں وارنٹ جاری کرنے کے بعد جیل بھیج دیا گیا ہے ۔اس درمیان منتری اجے نے جیل میں بیٹے سے ملاقات کی ۔ایس آئی ٹی ٹیم نے اسے غیر ارادتاً قتل کے بعد اس کو قتل کا کیس مانا ہے اور اس کی اس واردات کی مختلف دفعات میں کیس درج کرنے کی اجازت بھی عدالت سے لے لی ہے ۔غور طلب ہے کہ اس واردات سے پورا دیش حکہ بکا رہ گیا تھا ۔منتری پتر کا نام واردات مین آنے سے قومی سیاست گرما گئی ہے ۔مستقبل قریب میں اتر پردیش کے اسمبلی چناو¿ ہونے والے ہیں اس لئے اپوزیشن کو سرکار پر حاوی ہونے کا موقع ہاتھ لگ گیا تھا۔اس وقت کسان آندولن بھی تین زرعی قوانین کے خلاف چل رہا تھا ایسے میں مانا جارہا تھا کہ فوراً سرگرمی نہیں دکھائی گئی تو یوپی سرکار کے سامنے مصیبتیں کھڑی ہو جائیں گی اس لئے آناً فاناً میں ریاستی حکومت نے اس معاملے میں درج دو ایف آئی آڑ کی جانچ کے لئے نو نفری ایس آئی ٹی بنا دی تھی ۔تمام اپوزیشن پارٹیاں اور کسان انجمنیں مانگ کرتی رہی ہیں کہ لکھیم پور کھیری معاملے میں بنیادی سازش کنندہ اجے کمار مشرا ہے ۔کسان انجمنوں نے اپنی ایف آئی آر میں یہ بات کہی ہے اور شروع سے مانگ اٹھاتی رہی ہیں کہ اجے مشرا کو وزیر کے عہدہ سے استعفیٰ دینا ہوگا اور انہیں وزیر کے عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے ل۔اپنی دلیل کے حق میں انہوں نے اجے کمار مشرا کی واردات سے کچھ دن پہلے متنازعہ تقریر اور کسانوں کو ٹھینگا دکھانے کے ثبوت بھی اکھٹے کئے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے رہتے معاملے کی منصفانہ جانچ نہیں ہو سکتی مگر مرکزی حکومت نے ناجانے کس لالچ میں انہیں عہدے پر بنے رہنے دیا ۔سیاسی گلیاروں میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا مرکزی وزیر کے طور پر اجے مشرا ٹینی کی ایننگ ختم ہونے والی ہے ؟ ایننگ ختم ہو یا نہ ہو ، اس مسئلے پر اپوزیشن کے حملے پارلیمنٹ اور باہر ختم ہونے کا نام نہٰں لے رہیں ہیں اور نہ ہی ابھی آثار ہیں ۔مشرا کو لیکر بھاجپا میں بھی دو رائے پائی جاتی ہے ۔ایک رائے یہ ہے کہ لکھیم پور سانحہ نے کسان آندولن اور اپوزیشن کو طاقت دی ہے ۔کورونا دور میں یوپی سرکار کے بہتر کام اور بی جے پی کی ہندو وادی آئیڈیا لوجی کی بھی اچھی پکڑ سے بنے رہنے کا ماحول پر لکھیم پورسانحہ نے گندے چھینٹے پھینکے ہیں لیکن دوسری طرف برہمن ووٹ بینک کو متحد رکھنے کے بارے میں ہے ۔یہی رائے اب تک ہاوی نظرآئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مشرا ابھی تک وزیر بنے ہوئے ہیں ۔متاثرین کو انصاف ملنے کی امید بڑھی ہے لیکن ساتھ ہی مرکزی سرکار کی کرکری بھی ہو رہی ہے ۔بی جے پی کی امیج پر یہ بھاری پڑ رہی ہے ٹینی کی پاری ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟