آ ءاب لوٹ چلیں۔۔۔۔!

راجدھانی کی سر حدوں پر 378دنوں سے ڈٹے کسانوں کی مانگوں پر مرکزی حکومت کی یقین دہانی کے آخر کار جمعرات کے روز ڈیڈ لاک ختم ہو گیا۔ متحدہ کسان مورچہ نے آندولن ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا ۔ سندھو ٹکری و کنڈلی ، غازی پور سر حد پر کسانوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور گلے ملے مٹھائیاں باٹیں اور اس کے بعد وہاں سے تمبو بھی ہٹنے لگے کسانوں نے سنیچر سے گھر واپسی شروع کر دی ہے پنجاب میں بوائی کا موسم ہے لیکن اس ریاست کے لوگ ابھی تک اس درد کو نہیں بھلا پائے جو انہوں نے پچھلے ایک سال سے سہا ہے بھارت کے غذائی بھنڈار میں بڑا حصہ دینے والے پنجاب کے کسان پچھلے ایک سال سے راجدھانی دہلی کی سر حدوں پر ان تین نئے زرعی قوانین کی مخالفت کرتے نظر آئے جنہیں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی سرکار نے پارلیمنٹ میں پاس کرایا تھا مرکزی سرکار نے بھلے ہی تینوں متنازع زرعی قوانین کو واپس لے لیا ہے اوردونوں فریق کے درمیان کھینچ تان کم ہوتی دکھائی دی لیکن پنجاب کے درجنوں کنبوں کے لئے اس بات کو کوئی ماننے والا نہیں رہ گیا کہ دو پریوار ہیں جنہوں نے اپنوں کو کسان آندولن کے دوران کھویا ہے اور جن کے ممبران کسانوں کی احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے گئے تھے لیکن وہ اپنے گھر واپس زندہ نہیں لوٹے ان میں کئی لوگوں کو انتہائی ٹھنڈ سے بہت سوں کی سڑک حادثوں میں اور کچھ کی دل کا دورہ پڑنے میں موت ہو گئی جہاں پنجاب کا آبے گاو¿ں کسان آندولن کے دوران ہوئی اموات کے غم میں ڈوبا ہوا ہے اسی بات کو مرکزی سرکار نے دیش کی پارلیمنٹ کو بتایا کہ ان کے پاس دہلی اور اس کے آس پاس جمع ہوئے کسان آندولن کے دوران مارے گئے کسانوں کی تعداد کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور اس لئے مارے گئے لوگوں کے ورثا کو مالی مدد دینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا بلویر سنگھ راجے والا نے کہا کہ سرکار کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے ہم نے انہوں نے سبھی لوگوں کی فہرست دے دی ہے جنہوں نے کسان آندولن کے دوران اپنی جانیں گنوائیں اس فہرست میں سات سو سے زیادہ لوگ شامل ہیں جن میں سے چھ سو سے قریب پنجاب سے ہیں ۔ سندھو بارڈر سے قریب تین کلو میٹر دور پنجاب کے بھٹنڈا ضلعے کی منڈی کلا گاو¿ں میں ایک کسان میاں بیوی آج ہی اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کے غم میں مبتلا ہیں بلجیندر کور اپنے 24سالہ بیٹے منپریت سندھو کے بارے میں کہتی ہیں کہ اس نے اپنے گاو¿ں کے کئی لوگوں کی طرح احتجاجی مظاہرے میں حصہ لینے سندھو بارڈر گئیں تھیںاسی سال چھ جنوری کو دل کا دورہ پڑنے سے اس کی موت ہو گئی تھی ۔ بلجندر کور آگے بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا کہتا تھا کہ یہ سبھی کسان اپنے حق کی لڑائی لڑ رہا ہوں میں اس لڑائی کا حصہ کیسے نہیں بن سکتا ہم سخت محنت اور ایک مفلسی زندگی گزار رہے ہیں میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا کچھ ہو سکتا ہے ہم نے منپریت کو کئی بار مظاہرے میں جانے سے منع کیا تھا کیونکہ وہ ہمارا اکلوتا بیٹا تھا آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ کھو جائے گا گاو¿ں در گاو¿ں وہی کہانی اس چہرے پر دکھائی گھوم رہی ہے نام بدلتے رہے ہیں لیکن گاو¿ں در گاو¿ں کے غم کے کہانی کی تصویر ایک جیسی ہی تھی پنجاب ان پریواروں کے زخم ہرے اور نہ جانے انہیں بھرنے میں کتنا وقت لگے اگر یہ زخم بھی بھر گیا تواس کے نشان ان کے پریواروں کے ذہن میں زندگی بھر رہیں گے جو ان پریواروں نے کھویا ہے اس کی بھرپائی شاید کبھی نہ ہو پائے گی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟