جہیز پرتھا کیسے دور ہو ؟

سپریم کورٹ نے کہا کہ اس بات مین کوئی شبہہ نہیں ہے کہ جہیز ایک سماجی برائی ہے ۔لیکن اس بات کو لیکر سماج کے اندر تبدیلی ہونی چاہیے جو خاتون پریوار میں آئی ہے اس کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنایا جاتا ہے ۔اور کس طرح لوگ اس کی عزت کراتے ہیں بڑی عدالت نے کہا کہ عورتوں کی حالت پر دھیان دئیے جانے کی ضرورت ہے قانون ہونے کے باوجود جہیز جیسی سماجی برائی کے قائم رہنے پر سپریم کورٹ نے قانون پر پھر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔آئینی کمیشن کو پورے پش منظر کیساتھ اس پر غور کرنا چاہیے ۔حالانکہ عدالت نے جہیز قانون کو اور زیادہ اثر دار بنانے کے لئے حکم دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئین سازیہ کے دائر اختیار میں آتا ہے ۔عدالت نے عرضی گزار سے کہا کہ وہ اپنی تجاویز آئینی کمیشن کو دے دیں ۔آئینی کمیشن ان پر غور کرے گا ۔عرضی میں کی گئی یہ مانگیں ہر ایک ریاست اور سرکاری دفتر میں انفارمیشن افسر کی طرز پر جہیز انسداد افسر ہونا چاہیے جو جہیز انسداد قانون کو سخطی سے لاگو کرے جہیز نا لینے کا سرٹیفکیٹ یہ افسرجاری کرے اور شادی کے رجسٹریشن کے لئے یہ سرٹیفکیٹ ضروری کیا جائے ۔سرکار نوکری اور سرکاری اسکیمیوں کے لئے یہ سرٹیفکیٹ ضروری ہو ۔جہیز انسداد قانون کا بیجا استعمال کرنے والوں اور اس کی حمایت کرنے والے پولیس افسر دونوں پر جرمانہ کی سہولت رکھی جائے تاکہ قانون کا بیجا استعمال نہ ہو ۔جسٹس ڈی وائی چندر چور نے اور جسٹس ایس بوپنا کی بنچ عرضی پر سماعت کررہی تھی ۔سماجی رضاکار صابو ہریدھرن اور دیگر دو کی جانب سے داخل مفاد عامہ کی عرضی نپٹاتے ہوئے یہ احکامات دئیے ۔تیسرے عرضی گزار نے خود کو بھی جہیز سے متعلق معاملے میں متاثرہ کو بتایا تھا عرضی میں جہیز پر پوری طرح روک لگانے کی مانگ کی گئی تھی ۔عرضی گزار کی طرف سے پیش وکیل بیجو نے کورٹ سے کہا کہ قانون ہونے کے باوجود جہیز پرتھا قائم ہے اس لئے قانون کے اور زیادہ ٹھوس بنانے کی ضرورت ہے عدالت نے عرضی گزار کی تشویش سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ قانون میں کس طرح کی تبدیلی اور اقدامات کی ضرورت ہے ۔اس پر بحث اور غور ہونا چاہیے عرضی میں کئی مانگیں کی گئی تھیں ۔کہ شادی کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ سے پہلے اسپیشل پری میریج کونسل سرٹیفکیٹ ہونا ضروری کیا جائے ۔بنچ نے اس سلسلے میں حکم دینے سے منع کر دیا اور کہا اس کے سنگین نتائج ہوں گے ۔بھارت صرف کیرل ممبئی یا دہلی میں ہی نہیں بستا بلکہ بھارت گاو¿ں میں بھی بستا ہے ۔اور گاو¿ں میں نصابی ماہرین نہیں ملیں گے ۔اگر کورٹ یہ حکم دے گا کہ جب تک کورٹ نہیں پڑھا تب تک شادی کا رجسٹریشن نہیں ہوگا تو سوچئیے دیہاتی عورتوں کا کیا ہوگا جو یہ کورٹ اٹینڈ نہیں کر سکتیں اس پرتھا کو ختم کرنے کے لئے سماج کو اس مین اپنا رول نبھانا انتہائی ضروری ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟