کشمیر جنت نہیں ،یہ موت کا گھر ہے!

کشمیر وادی میں نشانہ بنا کر ہلاکت پاکستان اسپانسر دہشت گردی کا نیا چیپٹر ہے ۔اس مہینہ ٹارگیٹ کلنگ کی وارداتوں کو انجام دینے کے لئے دہشت گرد نئے نئے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں ۔واردات سے پہلے وہ صاف ٹارگیٹ کی پوری ریکی کرررہے ہیں ۔اس میں ہائی بریڈ دہشت گردوں کے ساتھ انڈر گراو¿نڈ ورکر کو بھی لگایا جا رہا ہے ۔پانچ اکتوبر کو سری نگر کے اسکول میں شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد سکھ خاتون پرنسپل سکھوندر کور اور جموں کے ہندو ٹیچر دیپک چند کو دہشت گردوں نے مارڈالاتھا ۔کولگام میں اتوار کو دوہرے قتل کو انجام دینے کے لئے دہشت گردوں نے دھان کی کٹائی کے لئے مزدور تلاش کرنے کے بہانے ان کو ہتھیار بنایا ۔سیکورٹی ایجنسیوں سے وابسطہ ذرائع نے بتایا کہ ٹارگیٹ کلنگ کے پیچھے سافٹ ٹارگیٹ کی مکمل ٹوہ لینا اہم وجہ ہے ۔دہشت گرد کئی دنوں تک آسانی سے نشانہ بنانے کے لئے ٹوہ لے کر اس کے بارے میں پوری تفصیل اکٹھا کررہے ہیں انہیں یہ اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ کب اور کس وقت حملہ کرنا مفید ہوگا اس مہینہ ہوئے ٹارگیٹ ہلاکتوں کی جانچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حملہ آوروں نے اپنے ٹارگیٹ کی پوری طرح سے معلومات حاصل کر لی تھیں ۔سری نگر اسکول میں حملہ ہو یا کشمیری دوا بجنس مین کا قتل یا دیہاڑی مزدوروں کا قتل سبھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کو پتہ تھا کہ کہاں نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔اور حملے کا مناسب موقع ہے ۔وادی میں ایک کے بعد قتلوں سے خوفزدہ غیر کشمیری مزدور وادی چھوڑ کر جموں آگئے ہیں ۔مایوس مزدوروں کا کہنا ہے کہ سناتھا کہ کشمیر جنت ہے لیکن یہ ہمارے جیسے غریبوں کے لئے تو موت کا گھر ہے ۔کشمیر کے بڈگام میں اینٹ بھٹے پر کام کرنے والے میاں بیوی گوونا اور راجیشوری سے کہا کہ صبح 6 بجے وہ جموں پہونچے تھے آپ آٹھ مہنہ سے کہیں کام کررہے تھے ۔لیکن آتنکی حملوں سے ڈر گئے ہیں ۔ٹھیکہ دار نے بھی حالات ٹھیک ہونے تک گھر چلے جانے کو کہہ دیا ۔بہار کے سیتاپور کے مزدور موہن بھگت کا کہنا تھا گھر والے فکر مند ہیں پہلے ہمیں ڈر نہیں لگتا تھا اس بار ھالات ڈرانے والے ہیں ۔ٹھیکہ دار نے بھی پیسے وغیرہ بھیج دئیے ہیں ۔آٹھ مہینہ سے جو کمایا وہ ٹھیکہ دار کے پاس ہی رہ گیا ۔ایک دیگر مزدور جے چند نے بتایا کہ پانچ سال سے مسلسل کشمیر میں اینٹ بھٹے کا کام کرتا ہے ۔ڈر تو ہمیشہ یہی رہتا ہے لیکن اس مرتبہ حالات کافی الگ ہیں ۔کئی دن سے ایک کمرے میں بند رہے ۔2019 میں آرٹیکل 370 ، 2020 میں لاک ڈاو¿ن اور 2021 میں ٹارگیٹ کلنگ کی دہشت نے مزدوروں کو وادی سے گھر لوٹنے پر مجبور کر دیا ہے ۔وادی میں قریب ایک لاکھ غیر کشمیر ی مزدور ہیں جو تعمیراتی کاموں سے لیکر کھیتی و دیگر مقامی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں ایسے میں اگر بڑی تعداد میں مزدور اپنی اپنی ریاستوں کو لوٹنے لگے تو کشمیر کی معیشت متاثر ہو سکتی ہے ۔کشمیر کی معیشت میں ٹوریزم اہم ترین حصہ ہے ۔وادی میں مسلسل ہو رہے آتنکی حملوں کو مایوسی میں کئے گئے حملے بتا کر یاصرف پاکستان پر ٹھیکرا پھوڑ کر پلہ جھاڑنے سے کام نہیں بنے گا اگر فوج کے دہشت گردی انسداد کا روائیوں کے باوجود دہشت گرد کھلے عام قتل کرنے میں کامیاب ہیں تو کہیں نہ کہیں سیکورٹی سب کی حکمت عملی پر سوال ضرور کھرے ہوں گے ۔یہ انتہائی ضروری ہے کہ سرکار فوراً ایسے قدم اٹھائے جس سے غیر کشمیری مزدوروں کے اندر پیدا عدم تحفظ کا احسا س ختم ہو اور ان کو اپنے گھر لوٹنے پر مجبور نہ ہونا پڑے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟