پتا کی ذمہ داری!

دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ ایک پتا کو اپنے بیٹے کی تعلیم کے خرچ کو پورا کرنے کی ذمہ داری سے صرف اس لئے مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ بالغ ہو گیا ہے ۔عدالت نے کہا کہ ایک والد کو یہ یقینی کرنے کے لئے مالی بوجھ اٹھانا چاہیے تاکہ اس کے بچے سماج میں ایک ایسا مقام بنانے میں اہل ہوں جہاں وہ ضروری طور سے اپنا گزر بسر کر سکیں ۔جسٹس سبرا منیم پرساد کی بنچ نے کہا کہ وہاں پر اپنے بیٹے کی تعلیم کا پورے خرچ کا بوجھ صرف اس لئے نہیں ڈالا جا سکتا کیوں کہ بچوں نے 18 سال کی عمر پوری کر لی ہو۔بنچ کا کہنا تھا کہ پتا کو اپنے بیٹے کی تعلیم کا پورا خرچ کے لئے اس کی اخلاقی ذمہ داریوں سے اس لئے مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کابیٹا بالغ ہو گیا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ وہ مالی طور سے بوجھ اٹھانے لائق نہ ہو اور خود کا گزارہ کرنے میں لاچار ہو ایک والد اپنی بیوی کو معاوضہ دینے کے لئے مجبور ہے کیوں کہ بچوں پر خرچ کرنے کے بعد شاید ہی اس پر کچھ بچے ۔بنچ نے یہ حکم ایک شخص کی اس عرضی کو مسترد کرتے ہوئے دیا جس میں ہائی کورٹ کے اس حکم کا جائزہ لینے کی درخواست کی گئی تھی جس میں اسے اپنی الگ رہ رہی بیوی کو تب تک 15 ہزار روپے کا ماہانہ گزارہ بھتا دینے کا حکم دیا گیا تھا ۔اور یہ جب تک جب اس کا بیٹا گریجوئیشن کی پڑھائی پوری نہیں کر لیتا اور کمانے نہیں لگ جاتا اس سے پہلے ایک پریوار کو عدالت نے حکم دیاتھا کہ بیٹا بالغ ہونے تک اپنے گزر بسر کا حقدار ہے اور بیٹی روزگار ملنے یا شادی ہونے تک بھی وہ اپنے گزارہ بھتہ لینے کا حقدار ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟