سرکاری افسر ریاستوں کے چناو ¿ کمشنر نہیں بن سکتے!

سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ کوئی بھی مرکز یا ریاستی حکومت کا ملازم ریاست کے چناو¿ کمشنر کی شکل میں کام نہیں کرسکتا اور حکومت میں کسی عہدے پر فائض شخص کے ریاستی چناو کمشنر کا ایڈیشنل ذمہ داری سونپنا آئین کا مذاق آڑانا اس مختار شخص کا ہونا ضروری ہے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ گو حکومت کے سیکریٹری کو ریاستی چناو¿ کمشنر کا ایڈیشنل چارج دینے کے معاملے میں چناو¿ کمیشن معاملے میں سنایا جسٹس روہنٹن ایف نریمن اور بی آر کی گوئی کی بینچ نے کہا کہ جمہوریت میں چناو¿ کمیشن کی مختاری سے سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ایسے کسی بھی شخص کو جو کسی مرکز یا ریاستی حکومت کے تحت کام کر تا تھااور فائدے کے عہدے پر بیٹھا ہوا تھا چناو¿ کمشنر کی تقرری نہیں کی جاسکتی بنچ نے کہا یہ ایک پریشان کرنے والی تصویر ہے ایک سرکاری ملازم جو سرکار کے ساتھ روزگار میں تھا گوا میں چناو¿ کمیشن کا انچار ج بھی ہے بنچ نے حکم دیا اس کے بعد ایسے کسی شخص کو مرکز یا ریاستی حکومت کے ذریعے چناو¿ کمیشنر کی شکل میں تقرری نہیں کیا جائے گا بنچ نے یہ حکم آئین کی دفعہ 142,144کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جاری کیا جبکہ سیکشن 144سبھی کام کو سپریم کورٹ کی معاونت میں کام کرنے کے لئے مضبوط کر تا ہے ۔ دراصل معاملہ یوں تھا گوا سرکار نے ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ نے اپیل کی تھی جس میں ریاست کے پانچ میونسپلٹیوں کے چناو¿ منسوخ کردیئے تھے کیونکہ قانون کے مطابق خواتین کیلئے واڈوں کو محفوظ نہیں کیا گیا ہے بڑی عدالت نے میونسپل کونسل چناو¿ کرانے کیلئے اپنے قانون سیکریٹری کو ریاست کا چناو¿ کمشنر کا فاضل چارج دینے سے روک دیا فیصلے میں کہا آئین کے تقاضوں کے تحت یہ ریاستی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ریاستی چناو¿ کمیشن کے کام کاز میں دخل نہ کرے یہ ریمارکس اور ہدایات 96صفحات کے فیصلے میں دیئے گئے ۔ جسٹس نریمن نے گوا میں شہری بلدیاتی چناو¿ کروانے سے جڑی عرضیوں پر دئے جج صاحب کا کہنا تھا کہ ریاستی چناو¿ کمشنر ریاستی سطح سے الگ آزاد شخص ہونا چاہئے کیونکہ عہدہ اہم ترین آئینی افسر ہوتا ہے جو ریاست میں پوری چناو¿ کروائی کے ساتھ پنچایتوں و میونسپلٹیوں کے چناو¿ں کو بھی دیکھتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟