وزیر اعظم نریندرمودی کو منھ بولا بھائی ماننے والی کریمہ بلوچ نہیں رہیں !

بلوچستان کی جانی مانی سیاسی رضا کار اور بلوچ اسٹوڈینٹس آرگانزیشن کی سابق صدر کریمہ بلوچ کی لاس کنیڈا کے ٹورنٹو شہر میں ملی وہاں کی صحافی صبا اعجاز نے بی بی سی کو بتایا کریمہ کی پولس نے تصدیق کردی ہے کریمہ بلوچ کے خاندان اور دوستوں نے بتایا کہ ان کی لاش پولس کے پاس تھی اس کے بعد اس کے پوسٹ مارتم کے بعد لاش کو دے دیا گیا کریمہ بلوچ کی موت کے اسباب کو پتہ نہیں چل سکا وہیں اس کی موت کے خبر آتے ہی سوشل میڈیا پر اسکی موت کی جانچ کی مانگ ہونے لگی بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ٹویٹ کیا سماجی کارکن کریمہ بلوچ کی موت ٹورنٹو میں ہونا بے حد تکلیف دہ ہے اور معاملے کی جانچ قصور واروں کو سزا ملنی چاہئے 37سالہ کریمہ بلوچ کنیڈا میں بطور رفیوجی رہ رہیں تھیں بی بی سی نے انہیں دنیا کی سو سب سے طاقت ور عورتوں کی فہرست میں شامل کیا تھا ۔ کریمہ بلوچ سال2005میں اپنے بلوچستان کے شہر تربت میں اس وقت سرخیوں میں آئیں جب لا پتہ ایک نوجوان کی پر اسرار تصویر ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیں یہ شخص ان کا قریبی رشتہ دار تھا اس لوگ کچھ لوگ ہی کریمہ کو جانتے تھے کہ یہ نقاب پوش خاتون کون ہے کریمہ بلوچ کے ماں باپ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ان کے چچا اور مامو بلوچ سیاست میں کافی سر گرم رہے بی ایس او کے سینئر نائب صدر ذاکر مزید کے لاپتہ ہونے کے بعد کریمہ کو تنظیم کا صدر بنایا گیا وہ بی ایس او کی پہلی خاتون صدر بنیںتنظیم کے لئے وہ مشکل دور تھا جب اس تنظیم کے لیڈر اچانک غائب ہورہے تھے کچھ چھپ گئے تھے اور کچھ نے الگ راستے اختیار کرلئے بلوچستان کی آزادی کی مانگ کرنے والی ایک تنظیم وی ایس او آزاد پر پاکستان کی حکومت نے سال 2013 میں پابندی لگا دی تھی ان حالات میں بھی کریمہ بلوچ نے تنظیم کو سرگرم رکھا اور بلوچستان کے دور دراج علاقوں میں تنظیم کی پہچان بنائی کریمہ بلوچ ایسی پہلی خاتون لیڈر تھیں جنہوں نے احتجاجی مظاہروں کا تربت سے کوئیٹا تک سڑکوں پر لائیں انہوں نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا تھا ان کا احتجاج لوگوں کو زبرا غائب کرنے اور ریاست کی کاروائیوں کے خلاف ہے سال 2008میں ایک ریلی کے لئے دہشت گرد انسداد قانون کے تحت الزامات لگائے گئے اور بھگوڑا تک قرار دے دیا گیا اس کے بعد ان پر فرنٹیر فورس سے رائفل چھیننے اور لوگوں کو اکسانے کا الزام لگاگیا جب پاکستان میں حالات خراب ہوگئے تو وہ کنیڈا چلی گئیں جہاں انہوں نے سیاسی پناہ لی اب ان کی موت سے بلوچیوں کے لئے تحریک کو دھکا لگا ہے ان کے بلوچ نیشنل مومنٹ نے کریمہ بلوچ کی موت پر چالیس دن کے سوگ کاا علان کیا ہے ۔ کریمہ بلوچ نے کچھ سال پہلے رکچھا بندھن کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سے مدد کے لئے اپیل کی تھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے لیڈر ثناءاللہ بلوچ نے ٹویٹ کیا کہ کریمہ کی اچانک موت ہونا ایک قومی ٹریجڈی سے کم نہیں دنیا کے سب سے محفوظ دیش کینڈا میں ایک بلوچ بیٹی کے غائب ہونے اور قتل سے وابستہ سارے حقائق سامنے آنے چاہئے کریمہ بلوچ کے غائب ہونے والے افرادکی مضبوط آواز تھیں اب وہ ہمارے ساتھ نہیں رہیں اس دکھ کےلئے الفاظ نہیں ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟