آزادی کی لڑائی دیکھی ، اب میں کسانوں کے مفاد کےلئے لڑوں گی

کسان تحریک ہر نئے دن وسیع شکل اختیار کررہی ہے۔ اس وقت لاکھوں ان داتا دارالحکومت کی سرحدوں پر موجود ہیں۔ ان میں چھوٹے بچوں سے لے کر بڑی تعداد میں بزرگ بھی شامل ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون جسویندر کور ہیں ، جنہوں نے 15 سال کی عمر میں 1945 کی آزادی کی جدوجہد میں انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا۔ اب وہ دہلی کے ٹکری بارڈر پر چلنے والی تحریک میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک مرکزی حکومت زرعی قانون کو واپس نہیں لیتی ، وہ احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ جسویندر کور (90) کا تعلق دہلی کے نانگلوئی علاقے سے ہے اور وہ اصل میں پنجاب کے ضلع سنگرور کی رہنے والی ہیں۔ وہ سخت سردی اور کورونا کے خوف کے باوجود پچھلے ایک ہفتہ سے ٹکری سرحد کے کنارے کسانوں کی مدد کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جس طرح انہوں نے ملک کی آزادی کی جنگ لڑی ، اسی طرح وہ کسانوں کی تحریک میں کسانوں کے مفاد کے لئے بھی لڑیں گی۔ وہ کسان کا وارث ہے اور اپنی چوتھی نسل کو دیکھ رہا ہے۔ ان کے قبیلے میں 1 ‹0 لوگ ہیں۔ سبھی کسی نہ کسی طرح کھیتی باڑی سے منسلک ہیں۔ جسوندر کور کا کہنا ہے کہ وہ کئی دنوں سے ٹی وی پر کسان تحریک کی خبریں دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ سردی کی سردی میں بھی کسان سڑکوں پر پھنس چکے ہیں۔ بہت سارے کھانے فراہم کرنے والے اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اسے یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اس لڑائی میں تحریک میں شامل ہوں گی اور قوانین کی واپسی تک کسانوں کی حمایت جاری رکھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں کاشتکاری ہوتی تھی ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ مبارک ہے جسوندر کور کے جذبات۔ یہاں تک کہ اس عمر میں بھی وہ کھڑی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟