پرسنل لاءمیں ہم دخل نہیں دے سکتے !

سپریم کورٹ ان دو مفاد عامہ کی عرضیوں پر غور کرنے کیلئے تیار ہوگیا ہے جن میں سبھی شہریوں کے لئے طلاق اور گزارا بھتہ اور یکسیاں بنیاد اور آئین کی مانگ کی گئی ہے چیف جسٹس ایس اے بووڑے ، جسٹس اے ایس بوپنہ اور جسٹس شیامہ سبرا منیم کی بنچ نے بدھ کو بھاجپا نیتا اوروکیل اشونی اپادھیائے کی دائر عرضیوں پر مرکز کو نوٹس جاری کرکے جواب داخل ہونے کو کہا ہے ۔غور طلب ہے اشونی اپادھیائے ایک دیگر نے مانگ کی ہے سبھی مذاہب میں گزارا بھتے کے لئے آئین کے جذبے کے مطابق ایک یکساں ضابطہ طے کئے جائیں ۔عرضی گزاروں کا کہنا ہے ابھی ہندو ، بودھ ،سکھ اور جین فرقہ کے لوگوں کو ہندو میرج ایکٹ کے تحت طلاق ملتی ہے جبکہ مسلم ایسائیوں اور پارسیوں کے اپنے اپنے پرسنل لاءہیں ۔جس کے چلتے نابالغی ، نامردی اور کم عمر میں شادی جیسی بنیاد جو ہندو میرج ایکٹ کے تحت طلاق کی بنیاد بنتے ہیں وہ پرسنل لاءمیں نہیں ہیں ۔عرضی گزار اشونی اپادھیائے کی جانب سے سینئر وکیل پنکی آنند نے دلیلیں دیں کہ بین الاقوامی معاہدہ اور آئین کے آرٹیکل 4915کے تحت ملے حقوق کے تئیں پرسنل لاءامتیاز پر مبنی ہے ۔سماعت کے دوران عرضی گزار کی طرف سے سینئر وکیل پنکی آنند اور مناکشی اروڑا سے کہا کہ آپ چاہتی ہیں کہ پرسنل لاءکو ختم کردیا جائے ۔بغیر پرسنل لاءمیں دخل دئیے ہم اس رواج کو کیسے ختم کر سکتے ہیں ؟ ان سبھی معاملوں پر غورکرنے کا مطلب پر سنل لاءکو مسترد کرنا ہے ؟ وہیں مناکشی اروڑا نے کہا کہ آئین کے تحت ریاستوں کو کچھ اختیارات و سمان یقنی کرنا ہوتا ہے اگر کوئی بھی دھارمک روایت بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتی ہے تو ریاست کو اس میں ضرور دخل دینا چاہیے ۔کس طرح سے مسلم خواتین کو گزارا بھتہ معاملے میں امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں صرف عدت تک گزارا بھتہ دیاجاتا ہے ۔اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا مسئلہ یہ ہے کہ کس رواج کو ایک برابر طریقہ سے اپنایا جانا چاہیے ؟ عدالت شروع میں ان عرضیوں پر غور کرنے کی خواہش مند نہیں تھی کیوں کہ معاملہ پرسنل لاءسے جڑا تھا حالانکہ بعد میں عدالت نے عرضیوں پر مرکزی سرکار کو نوٹس جاری کیا لیکن یہ بھی کہا کہ وہ احتیاط کے ساتھ اس پر غور کرےگا ۔سماعت کے دوران بنچ نے کہا کورٹ سے پرسنل لاءختم کرنے کی مانگ کررہے ہیں آپ نے سیدھے طور پر یہ مانگ نہیں کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہی نکلتا ہے اس پر پنکی آنند نے کہا کہ عدالت نے اس سے پہلے آرٹیکل 142کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سائرہ بانو (تین طلاق کیس)کے فیصلے میں کہا تھا کہ جب تک قانون بنتا ہے کورٹ کی ہدایت لاگو رہیں گے جسٹس بوگڑے نے کہا کہ آئینی کمیشن کو معاملہ سونپنے کی مانگ پر غور کرسکتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟