ان زرعی قوانین سے کھیتی میں کارپوریٹ کا دخل بڑھے گا!

دہلی اور اس کے بارڈر پر بیٹھے کسانوں کو وہاں رہنے دینے اور سپریم کورٹ میں زرعی بلوں کے خلاف داخل اپنی عرضی میں عدالت سے معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے ۔یہ عرضی بھارتیہ کسان یونین (بھانو گروپ)نے سپریم کورٹ میں دائر کی ہے ۔دراصل عدالت نے پہلے ہی 12اکتوبر کو چھتیس گڑھ کسان کانگریس ،ڈی ایم کے این پی تروچی سوا ، ایم پی منوج جھا سمیت دیگر کی طرف سے داخل عرضی پر عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہوا ہے ۔زرعی بل کے جواز کوچنوتی دینے والی عرضی پرسپریم کورٹ پہلے سے ہی سماعت کا فیصلہ کرچکی ہے اور اسی عرضی میں بھارتیہ کسان یونین کی جانب سے مداخلت کی درخواست کی گئی ہے ۔بھانو گروپ کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے زرعی قوانین من مانے ہیں اور یہ غیر آئینی ہیں ۔یہ قانون کسان مخالف ہے ۔نیا زرعی قانون زراعت سیکٹر کو کارپوریٹ کے ہاتھوں میں دینے کی تیاری ہے ۔اس قانون سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ ہوگا ۔یہ کمپنیاں بلا کسی روک ٹوک کے زرعی چیزوں کا ایکسپورٹ کریں گی ۔اور کوئی غور خوض کئے بغیر دیکھیں سپریم کورٹ ان عرضیوں پر سماعت کر کیا فیصلہ کرتی ہے ؟ ادھر تحریک چلا رہے کسانوں کا خیال ہے نریندر مودی سرکار کے رخ سے صاف ہے کہ وہ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کو تیار نہیں ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے وسیع اور غورخوض یہ جمہوری نکتہ چینی کے آگے جھکنا مودی سرکار کی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے یہ بات پچھلے سال سی اے اے کے سلسلے میں صاف ہو گئی تھی لیکن تب تنازعہ اقلیتوں کا تھا ۔حکمراں جماعت نے اس مسئلے پر ہو رہی گو ل بندی کو اپنے لئے فائدے مند سمجھا فی الحال ا ب کافی کچھ نظریہ کسان آندولن کے سلسلے میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔اس بار چونکہ بات کسانوں کی اور اس کو درمیانہ طبقہ کی حمایت بھی ملی ہے اس لئے بات چیت ایک دکھاوا ہے اب تک سرکار نے کوئی ایسی ٹھوس بات نہیں کی ہے جس کی بنیاد پر سمجھوتہ کی گنجائش ہو ہونا تو یہ ہی چاہیے تھا کہ سرکار کسانوں کے ساتھ رائے مشورے سے ہی قانون بنا لیتی لیکن ابھی بھی وہ ان ان چاہے قانون پر عمل کو معطل کر وسیع رائے مشورے سے انہیں کیا شکل دیتی ہے لیکن اس کے برعکس حکمراں پارٹی کے ایک نیتا نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر قانون لاگو نہیں ہوئے تو کارپوریٹ سیکٹر ناراض ہو جائیگا اس سے کسان اور بھڑکے ہیں ایک وزیر چین ،پاکستان کی سازش بتا رہا ہے اور اب تک وزیرزراعت نے صاف کر دیاہے کھیتی ریاست کا اشو ہے اور انہوں نے زراعت کے لئے نہیں بلکہ ٹریڈنگ کے لئے قانون بنایا ہے یعنی معاملہ کارپوریٹ کا زیادہ ہے ۔کسان تو برائے نام ہیں جس سے کسان تنظیم بھی قانونوں کے پیچھے کی اس منشا کو ملی بھگت جان رہے ہیں ۔اور وہ سمجھ گئے ہیں اس کی پول بھی بخوبی کھول رہے ہیں کہ کیسے قانون آنے سے پہلے سرکار کے دو امیر سرمایہ داروں امبانی اڈانی نے زراعت سے و ابسطہ تجارت میں داخل ہونے اور قبضہ کرنے کا بلو پرنٹ بنایا ہوا ہے یہ قانون اسی بلو پرنٹ پر عمل کا دستاویز ہے تبھی کسانون نے اعلان کیاہے امبانی اڈانی بھاجپا کا بائیکاٹ کریں گے کسان جان گیا ہے کہ کارپوریٹ کے طوطے میں مودی سرکار کی جان بسی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟