متاثرہ سے ہوا تھا گینگ ریپ اور پھر اس کا قتل !

گاو¿ںبلگڑھی کی لڑکی کے ساتھ حیوانیت اور اس کے قتل کے سرخیوں میں چھائے معاملے کی پچھلے 69دنوں سے جانچ کر رہی خفیہ ایجنسی سی بی آئی نے جمعہ کو ہاتھرس کی عدالت میں چاروں ملزمان کے خلاف دو ہزار صفحات کی چارج سیٹ داخل کردی ہے اس معاملے میں چارو ملزمان پر لڑکی سے آبرو ریزی کرنے پھر اس کے قتل کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ملزمان کے وکیل نے عدالت کے باہر بتایا سی بی آئی نے سندیپ ،لوکش ،روی اور رادھو کے خلاف اجتماعی آبرو رریزی و قتل کے الزامات لگائے ہیں ۔ اس معاملے کی پہلی تاریخ چار جنوری لگی ہے کوتوالی چند پا کے گاو¿ں بلگڑھی میں چودہ ستمبر کو ایک دلت لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ اورجسمانی مار پیٹ کی واردات ہوئی ۔علی گڑھ میڈیکل کالج کے دوران متاثرہ نے اپنے بیان میں اجتماعی بدفعلی کی بات کہی تھی ۔اس بیان پر پولیس نے سندیپ روی لوکش،اور رامو کو گرفتار کرکے جیل بھیجا تھا ۔29ستمبر کو دہلی میں علاج کے دوران لڑکی کی موت ہو گئی تھی ۔رات کو گاو¿ں میں اس کا انتم سنسکار کردیا گیا ۔رشتہ دارو ں نے پولیس پر زبردستی انتم سنسکار کا الزام لگایا تھا ۔اس کے بعد ایس پی سی او سمیت پانچ پولیس ملازم معطل ہوئے تھے ریاستی حکومت نے اس معاملے کی جانچ کے لئے پہلے ایس آئی ٹی بنائی اسی درمیان کیس سی بی آئی کوسونپ دیا گیا ۔69دن کی گہری جانچ پڑتال کے بعد سی بی آئی نے اسی تھیوری کو آگے بڑھایا جس پر مقامی پولیس کام کررہی تھی ۔اس میں لڑکی کا 22ستمبر کو علی گڑھ کے میڈیکل کالج میں پولیس کے تفتیشی افسر سی او سادہ باد کے سامنے دیاگیا بیان ہی اہم بنیاد رہا ۔ہاتھرس معاملے کی تحقیقات پر پولیس شروع سے ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی رہی اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح معاملہ رفع دفع ہو جائے ۔اس لئے پہلے پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے بچتی رہی پھر لڑکی کے علاج میں بھی لا پرواہی برتی گئی جب معاملہ طول پکڑنے لگا تو پولیس اور انتظامیہ طرح طرح کی کہانیا ں گھڑ کر ملزمان کو بچانے کی کوشش کرتے دیکھے گئے ۔پھر کسی طرح پولیس کو دباو¿ میں کیس آگے بڑھانا پڑا ۔ایک کہانی یہ بھی چلی لڑکی کو پریوار والوں نے ہی مارنے کی کوشش کی تھی مگر اپوزیشن پارٹیوں نے اس معاملے کو لیکر مظاہرے شروع کر دئیے تو انہیں ہاتھرس پہونچنے اور متاثرہ خاندان سے ملنے سے روکنے کی کوشش کی گئی ۔یہاں تک کہ ضلع مجسٹریٹ پر بھی الزام لگے کہ وہ متاثرہ خاندان کو دھمکا کر چپ کرنے کی کوشش کررہے تھے یہ حیران کرنے والا معاملہ تھا کہ جن لوگوں پر انصاف دلانے کی ذمہ داری ہے وہی نا انصافی کی طرف کھڑے تھے اترپردیش کی قانون و نظم کو لیکر پہلے ہی انگلیاں اٹھتی رہی ہیں ۔ہاتھر س معاملے میں تو پولیس انتظامیہ کے ٹوئٹ نے آگ میں گھی کا کام کیا جس سے پولیس انتظامیہ کے رویہ پر زبردست چوٹ پہوچی ہے جن لوگوں پر حفاظت اور انصاف یقینی بنانے کی ذمہ داری ہے اگر وہی دباو¿ میں آکر ناانصافی کا ساتھ دین گے تو قانون و نظام کو لیکر اتنا بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔بھلا پردیش پولیس کا یہ چہرہ خوف پیدا کرنے والا ہے تبھی تو سپریم کورٹ نے سخت رائے زنی کی تھی کہ اترپردیش میں جنگل راج ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟